کوہاٹ میں مقامی شخص نے افغان مہاجرین کے واحد ہایئر سیکنڈری سکول کو تالے لگادیئے
شمس افغان
کوہاٹ میں مقیم افغان مہاجرین نے الزام عائد کیا ہے کہ انکے کیمپ میں موجود واحد ہایئر سیکنڈری سکول پر مقامی افراد قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور طلباء کو پڑھنے ہی نہیں دیا جاتا۔
افغان مہاجرین کے کیمپ گمکول نمبر تین میں مقیم ملک عمر کا کہنا ہے کہ امام ابوحنیفہ ہایئرسیکنڈری سکول 40 سال سے قائم ہے جسکی دیکھ بھال پہلے افغان کمشنریٹ کے اہلکار کرتے تھے اور انتظام بھی وہی سنبھالتے تھے لیکن کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اس کا انتظام چھوڑ دیا۔
ملک عمر کا کہنا ہے کہ جب افغان کمشنریٹ نے اس سکول کا انتظام سنبھالنا چھوڑ دیا تو اس کے بعد افغان مہاجرین نے بچوں کے مستقبل کی خاطر خود پیسے دینا شروع کردیئے اور سکول کو جاری رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس افغان مہاجرکیمپ گمکول نمبر تین کی آبادی 17 ہزار ہے اور اس سکول میں 1000 کے قریب افغان طلباء زیر تعلیم ہے جبکہ آس پاس کوئی دوسرا ہایئر سیکنڈری سکول بھی نہیں ہے۔
ملک عمر کا بتانا ہے کہ سکول میں 18 کے قریب اساتذہ طلباء کو پڑھاتے ہیں اور طلباء کے والدین جو فیس جمع کرتے ہیں ان سے اساتذہ کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ ملک عمر کے مطابق کچھ عرصے سے مقامی افراد انکو تنگ کررہے ہیں کہ یہ سکول جس جگہ قائم ہے یہ زمین انکی ملکیت ہے اور وہ بار بار آکر بچوں کی پڑھائی میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سکول کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہے لیکن کچھ عرصہ قبل مقامی شخص نے اسکو تالے لگائے تھے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کی پڑھائی میں خلل نہ ڈالا جائے اور ان کا مسئلہ فوری طور پرحل کیا جائے تاکہ انکے بچے بغیر کسی خوف کے تعلیم حاصل کرسکیں۔
دوسری جانب مقامی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او اقبال خان کا کہنا ہے کہ انکو اس حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اگر افغان مہاجرین کو کوئی مسئلہ ہے تو ان سے رابطہ کریں پولیس انکے ساتھ ہر طرح سے تعاون کریں گی۔ پشاور میں افغان قونصلیٹ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ سکول انکے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے۔
اس سکول میں پڑھنے والے جماعت دہم کے طالبعلم مصطفیٰ نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ انکے علاقے میں افغان مہاجرین کا یہ واحد ہایئر سیکنڈری سکول ہے جہاں پرسینکڑوں افغان طلباء زیر تعلیم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب کچھ عرصے سے ایک مقامی شخص اس سکول کی زمین کی دعویداری کررہا ہے اور وہ یہاں پرمارکیٹ بنانا چاہتا ہے جس سے یہاں پڑھنے والے افغان طلباء میں بےچینی شروع ہوگئی ہے کیونکہ یہاں انکا کوئی دوسرا سکول نہیں ہے۔
مصطفیٰ نے مزید بتایا کہ افغان مہاجرین یہاں غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جو محنت مزدوری کرکے اس سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سکول بھی ان سے چھن گیا تو وہ کہاں جائیں گے۔
انہوں نے حکومت اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے یا تو ان کا سکول کا مسئلہ حل کیا جائے اور یا پھر انکو دیگر سکولوں میں داخلے دیئے جائے تاکہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو اور وہ بھی تعلیم حاصل کرسکیں۔