”خواتین کے مسائل خواتین ہی اچھی طرح سے رپورٹ کر سکتی ہیں”
سدرہ آیان
مردان میں غیر سرکاری تنظیم ڈی سی ایچ ڈی کے زیر اہتمام ایک مٹینگ منعقد ہوئی جس میں مردان کے سیینئر اور جونئیر رپورٹرز نے شرکت کی۔
پیر کو مردان پریس کلب شمسی روڈ پر واقع عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی دفتر میں منعقدہ اس میٹنگ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی ایچ ڈی مردان کی پروگرام کوآرڈنیٹر نصرت آرا نے کہا کہ خواتین پر تشدد اور ہراسمنٹ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ناسور کی طرح پھیلا ہوا ہے جس کو کنٹرول کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ چاہے کچھ بھی ہو ہم ہمیشہ خواتین کو ہی تنقید کا نشانہ بنا کر ان ہی کے لیے ایسے الفاظ کو استعمال کرتے ہیں جو انتہائی نامناسب ہوتے ہیں، خواتین پر تشدد کے حوالے سے زیادہ رپورٹ درج نہیں ہوتی، یا تو وہ اپنے حقوق سے محروم یا لاعلم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے صنفی تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
نصرت آراء کہا کہ بطور مسلمان خواتین کو تو ساڑھے چودہ سو برس پہلے ہی اپنے حقوق مل گئے تھے اور وراثت کا حق دین اسلام نے دیا مگر آج صورتحال یہ ہے کہ بیٹوں کو تو وراثت میں حق دے دیا جاتا ہے مگر بیٹی کو نہیں دیا جاتا، بھائی بھی بہن کو حصہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے جو ہمارے لیے افسوس کی بات ہے، یہاں بیٹیوں کو نہ صرف وراثتی بلکہ ان کو ان کے بہت سے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے متعلق خبریں عمومی طور پر تشدد یا جرائم کے معاملے میں ہی آتی ہیں اور اس خبر کو مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں خواتین میں ڈر اور بے عزتی کا خوف پھیل جاتا ہے، ”میڈیا میں خواتین کی کم نمائندگی کے باعث بہتر رپورٹنگ نہیں ہو پاتی کیونکہ بہت سی جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں مرد حضرات کا جانا مناسب نہیں ہوتا اس لیے میڈیا میں خواتین نمائندوں کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ خواتین کو اپنے مسائل ان سے شیئر کرنے میں آسانی محسوس ہو، ”خواتیں کا میڈیا میں کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔”
پروگرام کوآرڈینیٹر کے مطابق میڈیا خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کے تعلق سے حساس رویہ اختیار کرے، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ میڈیا کی ترقی میں خواتین کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مرد صحافیوں کا، خواتین مثبت طریقے سے میڈیا کے ذریعے معاشرے کے مسائل دنیا کے سامنے لا سکتی ہیں، دیکھا جائے تو خواتین صنفی مسائل بھی بہتر طریقے سے میڈیا پر اجاگر کرتی ہیں، مثلاً غیرت کے نام پر قتل، خواتین پر حملے، کم عمری میں شادیاں، گھریلو تشدد کے واقعات، اور جہیز کے مسائل وغیرہ، ان مسائل پر خواتین میں ہمدردی اور دوسروں کا درد سمجھنے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ سب ایسے واقعات ہیں جن پر خواتین مردوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے رپورٹ کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا ہو یا کوئی بھی شعبہ، خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر ہر طوفان کا سامنا کرنا چاہیے، جب کام کی بات ہو تو مرد اور عورت، ہم سب کو ایک ہونا چاہئے اور کسی بھی تفریق کے بغیر کام کرنا چاہئے تب ہی ایک اچھا اور تعلیم اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود میں آئے گا، ”ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین پر تشدد کا خاتمہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ سب سے پہلے ہماری ذمہ داری ہے پھر تعلیمی اداروں اور قانون ساز اداروں کی، ”سب کو مل کر کرنا ہو گا۔”
مردان پریس کلب کے سیکٹری نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے طلبہ و طالبات کو یکساں مواقعے فراہم کیے ہوئے ہیں، علاوہ ازیں وہ طلبہ و طالبات جو فریش گریجویٹ ہوں ان کو ٹریننگ و انٹرنشپس کا موقع دیا جارہا ہے، ”ہمارا مقصد معاشرے میں نئے لوگوں کو مواقع دے کر آگے بڑھنے کا رستہ دکھانا ہے تاکہ وہ آگے جا کر خواتین کے حقوق، سوشل رپورٹنگ اور اپنے ملک و قوم کے لیے کام کر سکیں۔”