”چترال میں 22 کرش پلانٹ بند کر کے سینکڑوں مزدور بیروزگار کر دیئے گئے”
چترال کے دونوں اضلاع میں محکمہ صنعت و حرفت نے تمام کرش پلانٹوں کو بند کر دیا جس کے حلاف کرش پلانٹ مالکان اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں نے ائیرپورٹ روڈ پر ایک پرامن احتجاج کیا۔
کرش پلانٹ ایسوسی ایشن کے صدر سید خالد جان ایڈوکیٹ کے زیر قیادت مظاہرے کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے تھے جن پر حکومت کے اس اقدام کے خلاف عرے درج تھے
اس موقع پر سید خالد جان نے بتایا کہ ضلع اپر اور لوئر چترال میں 22 کرش پلانٹ ہیں جن میں 500 کے قریب مزدور کام کر رہے ہیں، دیگر شعبوں سے وابستہ سینکڑوں لوگ بھی اسی سے رزق حلال کما رہے ہیں، محکمہ صنعت و حرفت نے پاور کرشر ایکٹ 2020 نافذ کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی کرش پلانٹ سڑک سے 150 میٹر کے فاصلے پر واقع ہو گا اور ریور بیلٹ یعنی دریا کے کنارے سے بھی ڈیڑھ سو میٹر دور قائم کیا جائے گا، ملاکنڈ ڈویژن میں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سید عباس جان نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں عمومی طور پر اور چترال میں حصوصی طور پر زمین کی جغرافیائی ساحت ایسی ہے کہ دونوں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں دریا بہتا ہے، یہاں اتنا وسیع میدانی علاقہ ہے نہیں جو سڑک یا دریا کے کنارے سے ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم شروع سے اس محکمہ اور حکومت کے ہر ظلم و ستم کو برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کرش پلانٹ کیلئے لائسنس کی سالانہ فیس پانچ ہزار سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے مقرر کی گئی جو سراسر زیادتی ہے، اسی طرح سالانہ تجدید کی فیس دو ہزار روپے سے بڑھا کر بیس ہزار روپے کر دی گئی جو ہماری برداشت سے باہر تھا مگر اس کے باوجود ہم نے زہر کا یہ گھونٹ پی لیا، ہماری آمدنی اتنی نہیں ہے جتنا ہم ٹیکس دے رہے ہیں۔
سفیر اللہ نے بتایا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ صنعت و حرفت نے دونوں اضلاع میں تمام کرش پلانٹ کو بند کر کے سیکنڑوں لوگوں کو بے روز گار کر دیا ہے، ان کے گھر کے چولہے بجھ گئے، ان کرش پلانٹوں کو بند کرنے سے ایک طرف اگر سینکڑوں لوگ بے روز گار ہوئے تو دوسری طرف تمام سرکاری اور غیرسرکاری ترقیاتی کام بھی رک گئے جبکہ چترال ریڈ زون میں شامل ہے اور کسی بھی وقت بڑا زلزلہ آ سکتا ہے جس سے بچنے کیلئے عمارتوں میں نہایت معیاری میٹریل کا استعمال ضروری ہے۔
انہوں نے 12 مارچ کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت اپنا یہ ظالمانہ فیصلہ واپس نہ لے تو کرش پلانٹ مالکان اور مزدور سولہ مارچ کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے بھر پور احتجاج کریں گے، اس کے بعد تمام سرکاری اور غیرسرکاری کاموں کو کرش کی سپلائی بند کی جائے گی۔
اس موقع پر چترال کنٹریکٹر ایسوسی ایشن کے صدر نور احمد خان بھی موجود تھے اور انہوں نے بھی عندیہ دیا کہ کرش پلانٹ مالکان کے ساتھ ٹھیکدار برادری بھی بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کرے گی۔