ڈی آئی خان کی ضلعی کچہری، باہر سے کچھ، اندر سے کچھ اور
رضوان محسود
ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی کچہری کے مین گیٹ پر پولیس اہلکار جامہ تلاشی میں مصروف ہیں اور آنے والے سائلین کو فیس ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں اور ساتھ میں ماسک نہ پہننے والوں کو منع کر رہے ہیں۔ یہ ضلع کچہری کا باہر سے دکھنے والا چہرہ ہے۔
کچہری کے اندرونی حالات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ گیٹ سے اندر جانے کے بعد نہ تو ماسک کی پوچھ گچھ ہے نہ سماجی فاصلہ پر کوئی عمل درآمد کر رہا ہے۔ اندر نہ تو ہاتھ دھونے کا انتظام ہے اور نہ جراثیم کش سینٹائزر موجود ہیں۔
یہ صرف ڈی آئی خان کی ضلعی کچہری کا حال نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی تمام عدالتوں اور کچہریوں کا تقریباً یہی حال ہے۔
پشاور کے صحافی عبدالرؤف یوسفزئی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ غیرسنجیدگی صرف کچہریوں تک محدود نہیں بلکہ ملک کے تمام مقامات، اداروں اور حتیٰ کے سرکاری دفاتر کا بھی یہی حال ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے وزرا آج کل ایس او پیز پر عمل درآمد کیلئے ہر فورم اور پریس کانفرنس میں بات کرتے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہیں کہ ملک بھر میں کورونا کے بڑھتے کیسز کے ذمہ دار ان کے جلسے جلوس ہیں۔ لیکن یہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ حکومت اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے اور حقیقت میں خود اس وبا کو روکنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنا رہی۔
صحافی نے کہا کہ حکومت کے تمام تر اعلانات، کرونا کے تناظر میں مختلف قسم کے لاک ڈاون (سمارٹ وغیرہ) محض کاغذات تک محدود ہیں کیونکہ حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے اجلاسوں اور تقریبات میں نہ کوئی ماسک کا استعمال کرتا ہے اور نہ سماجی فاصلے کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی کچہری کو ایک کیس کی پیروی کے سلسلے میں آنے والے بائیس سالہ بلال خان نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے بچنے کیلئے یہاں پر صرف پوسٹر چسپاں ہیں، باقی اللہ حافظ، نہ کوئی سنیٹائزر، نہ ہاتھ دھونے کا انتظام۔ اور عدالتوں کے سامنے اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ ہسپتال کے او پی ڈی کا گمان ہوتا ہے، بے شمار لوگ لائن میں لگے رہتے ہیں۔
اسد اللہ ایڈوکیٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں کافی عرصے سے وکالت کرتے ہیں، ان کے مطابق کرونا کے پہلے مرحلے میں پچیس تک وکلا ڈیرہ اسماعیل خان میں اس وائرس سے متاثر ہوئے جن میں وہ خود بھی شامل تھا۔ انہوں نے حقیقت کے برعکس کہا کہ اب کچہری میں ایس او پیز پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دوسرے لہر میں وکیلا برادری کو کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑا ہے۔
ڈٰرہ اسماعیل خان ضلعی عدلیہ کے ایکٹنگ سپرٹینڈنٹ محمد رمضان کے مطابق کچری کے مرکزی گیٹ پر عام عوام کیلئے دو ڈرم ٹائپ کے سینٹائزرز نصب کئے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے اپنے آفیشلز اور ججز صاحبان کو الگ سےسینٹائرزر اور حفاظتی سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر گیٹ پر نو ماسک نو انٹری کے بینرز بھی چسپاں کئے ہوئے ہیں، ان پر ہمارے افسران پورا پورا عمل کررہے ہیں۔
محمد رمضان آگے بتاتے ہیں کہ جس طرح ہسپتال میں پالیسی ہے کہ ایک بیمار کے ساتھ ایک تیمادار آئے گا تو ضلعی کچہری میں بھی اسی الیسی پر بھی عمل ہو رہا ہے کہ کیس کے صرف متعلقہ فرد عدالت آئے گا ۔ جب کیس میں پکار ہوتی ہے تو اگر ایک سے زیادہ کلائنٹ ہوتے ہیں تو ہم نے چپڑاسی کو یہ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ ایک کو اندر جانے کی اجازت دی جائے باقیوں کو باہر ہی ٹہرایا جائے تا کہ رش نہ بنے۔
ڈسٹرکٹ بار کے صدر قیضار خان میانخیل کے مطابق یہاں پر ہم نے اپنی طرف سے بھی انتظامات کئے ہیں ۔ ڈسڑکٹ بار میں ہم حکومت کی جانب سے بتائے گئے حفاظتی اقدامات پر پورا پورا عمل کررہے ہیں، خاص کر وکلا ماسک کا استعمال کررہے ہیں اور اگر جس کے پاس نہیں ہوتا تو سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہیں جن کے ہمیں خاطر خواہ نتائج مل رہے ہیں اور ابھی تک ہم محفوظ ہیں ۔ کیونکہ وکلا پڑھا لکھا طبقہ ہے تو اُن کو اس بارے آگاہی ہے، باقی عام سائلین میں سے چند ایک ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن ان پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے، صرف درخواست ہی کر سکتے ہیں۔