ڈیرہ اسماعیل خان :وہ درسگاہ جسے کورونا وائرس بند نہیں کروا سکا
پرائیوئٹ سکول مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ پرائیوئٹ سکولز کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار اساتذہ پڑھا رہے ہیں جبکہ چوبیس لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں
رضوان محسود
پاکستان میں کرونا کی دوسری لہر کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کردیا ہے لیکن دینی مدارس اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے حکومتی فیصلے کو ماننے سے انکار کیا ہے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس میں پڑھائی کا عمل بدستور جاری ہے۔ حکومت بھی دینی مدارس اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف کاروائی میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔
اس حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان میں جنت الرشید دینی ادارے کے استاد مفتی نور ولی شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ حکومت نے دیگر تعلیمی اداروں کی نسبت دینی اداروں کے ساتھ نرمی کی ہے اور مدرسو میں کورونا ایس او پیز کے تحت رہنے اور پڑھنے کی اجازت دی ہے تو اس وجہ سے انہوں نے مدرسے میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
نور ولی شاہ کے مطابق ‘ہمیں کہا گیا ہے کہ طلباء کو باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے اور جو بچے او اساتذہ مدرسوں میں رہائش پذیر ہیں انہیں اپنی تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے دیں اور ایس او پیز پر عمل کریں’
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اس وقت مدراس کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جن میں 25 لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سنہ 1947 میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو سنہ 1980 میں 2061 اور اب 30 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں 3,500 مدارس ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 24،000 تک طلباء زیرتعلیم ہے۔
دوسری جانب پرائیوٹ سکولوں کے مالکان کا موقف ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر میں انکو مالی مشکلات کا سامنا رہا اور اب بھی انہیں اندیشہ ہے کہ اگر تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند کر دیئے گئے تو کام مزید بگڑ جائے گا۔
ایک نجی ادارے کے پرنسپل ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ ہفتہ میں ایک دن بچوں کو پڑھانا مشکل کام ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہفتہ بھر کا کام بچہ ایک دن میں سیکھ جائے۔
پرائیوئٹ سکول مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ پرائیوئٹ سکولز کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار اساتذہ پڑھا رہے ہیں جبکہ چوبیس لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں ایسے سکولز بھی ہیں جن کی رجسٹریشن پرائیوئٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی سے نہیں ہوئی ہے۔
وہ کہتے کہ اگر سکولز کھلے رہیں تو فیس لیکر وہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں گے اور والدین بھی خوشی سے وقت پر فیس ادا کرینگے جس سے پرائیوٹ سکولز میں پڑھانے والے استاد کو وقت پر تنخواہیں دی جائے گی۔
‘اگر اندازہ لگالیں تو چھ، ساتھ مہینوں تک سکول بند رہےاس میں سکولوں کا کرایہ، ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کی تنخواہیں بمشکل پوری ہوئی ہے اور ڈیڑھ ماہ تک سکول کھولنے کے بعدایک بار پھر سکول بند ہوگئے جس سے نہ صرف طلبا متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ اساتذہ پر برا اثر پڑسکتا ہے’ ابراہیم خان نے کہا۔
بچوں کے والدین بھی دوبارہ تعلیمی سلسلہ بند ہونے پر ناخوش اور بچوں کے مستبقل کے بارے میں پریشان ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سعود محسود کہتے ہیں اگر ایک طرف سکولز بند کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے تو دوسری طرف یہ فیصلہ بچوں کے مستقبل کے لئے خطرہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
سعود محسود کے مطابق بچے اگر گھروں پر ہونگے تو اس بیماری سے محفوظ ہونگے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے توتعلیم کا جو سلسلہ ہے وہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ان میں بعض سکولوں نے ان لائن کلاسز شروع کی ہیں میں اس کے حق میں ہوں لیکن وزیرستان جیسے علاقے میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں طلبہ ان لائن کلاسز لینے سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
دوسری جانب کشمنر ڈیرہ ڈویژن یحیی اخونزادہ کہتے ہیں کورونا وائرس کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ تیز او خطرناک ہے اور پورے ملک میں اس وائرس کی شرح گیارہ سے لیکر ستر فیصد بتائی جاتی ہے جس سے میں سات سے آٹھ فیصد ڈیرہ اسماعیل خان میں بتائی جارہی ہے اس وجہ سے حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمشنر کے مطابق انہوں نے تمام سٹاف کو احکامات جاری کی ہیں کہ وہ باقاعدہ طور پر تعلیمی اداروں کے دورے کریں او خلاف ورزی کرنے والوں خلاف سخت سے ایکشن لے۔