3000 تنخواہ بھی بند ہوئی تو سلمیٰ کے گھر پر کیا گزری؟
سٹیزن جرنلسٹ رضیہ محسود
ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے والی سلمیٰ کو کرونا وائرس کے دوسرے ممکنہ لاک ڈاون نے کافی پریشان کیا ہوا ہے اور وہ کافی خوف کا شکار ہے کہ اگر دوسری بار بھی کرونا لگ گیا تو ان کا کام ختم ہوجائے گا اور وہ پھر سے گھر بیٹھ کر فاقوں پر مجبور ہو جائیگی۔ سلمیٰ ڈیرہ اسماعیل خان میں پچھلے چند سالوں سے لوگوں کے گھروں میں کھانا پکانے ، برتن دھونے اور جھاڑو لگانے کا کام کرتی ہے۔ کرونا وائرس سے ہونے والے پہلے لاک ڈاون سے سلمہ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سلمیٰ کو گھروں کے مالکن نے مزید کام کرنے سے منع کردیا تھا جس کی وجہ سے سلمیٰ کو کہیں پر بھی مزدوری نہیں ملتی تھی اور وہ اس حالت میں گھر بیٹھ گئی تھی۔
سلمیٰ ایک مجبور عورت ہے جس کا شوہر بیمار ہے اور بچوں کی ساری ذمہ داری اور گھر کا بوجھ سلمیٰ کے کندھوں پر آن پڑا ہے جس کی وجہ سے سلمیٰ کو مجبورا دوسرے گھروں میں کام کرنا پڑرہا ہے۔ سلمیٰ کو 3000 ماہانہ تنخواہ ملتی تھی اور کھبی کبھار اس کو مالکن روٹی اور پرانے کپڑے بھی دے جاتی تھی۔ سلمیٰ کا کہنا ہے کہ انکے تین بچے بھی ہیں جن کو وہ پالتی ہوں کیونکہ وہ چھوٹے ہے وہ ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
‘کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہونے والے لاک ڈاون کی وجہ سے جب مجھے گھر بیٹھنا پڑا تو گھر میں نوبت فاقوں تک آگئی جس نے نہ صرف میری پریشانی بڑھائی بلکہ مجھے بیمار کردیا محلے کے لوگ روٹی وغیرہ دے جاتے تھے کیونکہ ان کو میری حالت کا اندازہ تھا’ سلمہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
مختلف رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آدھی آبادی غربت کے لیکر کے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ پاکستان کے سابقہ وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ملک میں نو کروڑ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
کرونا لاک ڈاون کے دوران سلمیٰ جیسی بہت ساری ان خواتین کو مالکوں نے گھر آنے سے روک دیا تھا جو مالکوں کی خدمت کرکے اپنے گھر کا چولہا جلاتی تھی۔ خیبرپختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی خواتین موجود ہیں جو یا تو گھروں میں برتن دھونے اور کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں اور گھر پر ہی سلائی کڑھائی یا پیکنگ کا کام کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پورے صوبے میں ابھی تک انکے لیے کوئی قانون سازی نہ ہوسکی۔ ان خواتین کا گلہ ہے کہ ایک تو انکو کام کرنے کے پیسے بہت کم ملتے ہیں اور دوسری جانب جب کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون لگا تو ان سے وہ کام بھی چھن گیا جس سے انکے گھروں کا چولہا جلتا تھا۔
اگر ایک طرف کرونا لاک ڈاون نے سلمیٰ اور اور انکی طرح کام کرنے والی باقی خواتین کی زندگی اجیرن بنا دی تو دوسری طرف کچھ لوگوں نے ایسی خواتین کی امداد بھی کی ہے، ان لوگوں نے نہ صرف کام کرنے والوں کا خیال رکھا بلکہ ان کے ساتھ تنخواہ کے علاوہ مالی مدد بھی کی اور ان کو راشن وغیرہ بھی پہنچاتے رہے۔ ایسی خواتین میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والی سکینہ بی بی بھی شامل ہیں سکینہ نے ان بے سہارا اور غریب عورتوں کی مالی مدد کے ساتھ ان کو راشن وغیرہ بھی دیا۔
سکینہ کا کہنا ہے کہ چونکہ کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے کاروبار وغیرہ بند ہوگئے اور زندگی متاثر ہونے لگی وہی پر مجھے ان غریب عورتوں کا احساس بھی ہونے لگا کہ ہماری زندگی پر اتنا اثر پڑا ہے تو ان غریب عورتوں کی زندگی کتنی متاثر ہوئی ہوگی ان کے بچے تو گھر میں دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہونگے، اسی سوچ کو لیکر میں غریبوں کے ساتھ مالی تعاون کرتی رہی۔