‘ایک ہاتھ میں کدال، دوسرے میں بیلچہ، باجوڑ کا عبدالمالک دو دن سے مزدوری کی تلاش میں
پھٹے پرانے کپڑے پہنے، ہاتھوں میں کدال اور بیلچہ لئے 42 سالہ عبدالمالک باجوڑ کے خار بازار میں دیگر مزدور ساتھیوں کے ہمراہ سڑک کنارے بیٹھا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی وہاں تھوڑا رک جائے تو دیگر مزدوروں کی طرح عبدلمالک بھی ان کی طرف لپک پڑتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ مزدوری کے لئے انہیں ساتھ لے جائے۔
آج تیسرا دن ہے لیکن عبدالمالک کی ایک بھی کوشش کامیاب نہ ہوسکی ہے۔ ایک تو پہلے کی نسبت وہاں سے مزدور ساتھ لے جانے والے بہت کم آ رہے ہیں اور جب اکا دکا آ بھی جاتا ہے تو اس کی نظر عبدالمالک پر نہیں پڑتی۔ عبدالمالک سمجھتا ہے کہ مزدوری ملنا یا نہ ملنا نصیب کی بات ہے لیکن ساتھ بھی وہ اپنی پوری کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔
امسال ایسی حالت عبدالمالک پر پہلی دفعہ نہیں آئی، کورونا وبا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن کے سبب عبدالمالک نے تقریبا پانچ مہینے گھر پر گزارے تھے اور اس دوران بیوی، 5 بچوں اور ضعیف ماں پر مشتمل گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے گھر میں موجود مویشی تک بھیجنے پر مجبور ہوئے تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مالک نے بتایا وہ اپنے گھر کے اکلوتے کمانے والے ہے اگر اسے دہاڑی ملی تو گھر کے دیگر افراد پیٹ بھر کے سوجائنگے ورنہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
"کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے ایک بار پھر لوگ ہم سے کترانے لگے ہیں، اب دو، تین بعد ہی سہی لیکن مزدوری مل جاتی ہے لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر دوبارہ مکمل لاک ڈاون نافذ ہوا تو مجھ سمیت ہزاروں دہاڑی دار مزدور رزق حلال کمانے سے محروم ہوجائیں گے” عبدالمالک نے تشویش ظاہر کی۔
رواں سال اپریل میں ملک میں نافذ لاک ڈاؤن کے دوران منصوبہ بندی کے وفاقی وزارت نے کچھ اعداد و شمار جاری کئے تھے جس کے مطابق ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران 1 کروڑ 80 لاکھ تک لوگوں کا بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جب کہ اس دوران ملکی معیشت کو بھی ساڑھے 15 ارب ڈالر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دوسری جانب مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے مطابق ملک کے ساڑھے 6 کروڑ مزدوروں کا 75 فیصد اس لاک ڈاؤن کے دوران بدترین حالات سے گزرے ہیں جن میں 40 فیصد کا تعلق شعبہ زراعت سے ہے۔
ادارے کے مطابق ان مزدوروں میں زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ہیں جن کے پاس نہ کوئی سماجی تحفظ ہے اور نہ قانونی چارہ جوئی کا اختیار۔ کوئی کارخانہ انہیں نوکری سے نکالتا ہے، انہیں کبھی مزدوری نہیں ملتی یا کوئی بھی مسئلہ ان کے ساتھ پیش آتا ہے تو نہ تو وہ کسی کے خلاف عدالت جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مخصوص امداد حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے دوسرے شہروں کے باسیوں کے مقابلے میں لاک ڈاؤن نے خیبرپختونخوا میں نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے لوگوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ بدامنی اور ملٹری اپریشنز کے بعد یہ لوگ اپنے پاؤں پر صحیح طریقے سے کھڑے بھی نہ ہو پائے تھے کہ کورونا وبا آگئی اور ان کی زندگی میں مزید آزمائشیں لے آئی۔
ضلعی اورکزئی کے رہائشی محمد شعیب کچھ برس پہلے آپریشن کی وجہ سے اپنے خاندان سمیت ہنگو میں متاثرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے شعیب نے کہاہے کہ عام آدمی کی نسبت وہ لاک ڈاون سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ پرائے شہر میں رہنے کے لئے گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس او بل اور بچوں کی فیس ادا کرنا پڑنا ہوتا ہے۔
شعیب نے بتایا کورونا وائرس کی دوسری لہر نے انہیں ایک بار پھر خوف میں مبتلا کیا کیونکہ لاک ڈاون کے پہلے مرحلے میں جب سب کچھ بند ہوا تو وہ قرض لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
” جب کورونا سے پہلے ہم مزدوری کرنے کے لئے چوک پر جاتے تھے تو کہی نہ کہی سے دہاڑی مل جاتی تھی جس پر ہمارا گزارا ہوجاتا تھا اور زندگی کا پہیہ رواں دواں تھا لیکن کورونا وائرس نے ہم سے وہ سب کچھ چھین لیا ”
شعیب کے مطابق لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد ان کی مشکلات میں کچھ حد تک کمی آئی ہیں اور توڑا بہت کام ملنے پر وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔
مارچ میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد حکومت پاکستان نے عبدالمالک اور شعیب جیسے لاچار لوگوں کی مدد کے لئے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا جس میں 1 کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کے لئے 144 ارب روپے بجٹ مخصوص کیا ہے۔ پروگرام کے تحت ہر خاندان کو 12، 12 ہزار روپے دئے گئے ہیں۔
سرکاری سکیم کے علاوہ مقامی سطح پر سینکڑوں غیرسرکاری اداروں نے بھی اس مشکل وقت میں لاچاروں کی تھوڑی بہت معاونت کی ہے جن میں شمالی وزیرستان کی یوتھ آف وزیرستان بھی شامل ہے۔
یوتھ آف وزیرستان کے عمائدین چند مہینوں بعد آج ایک بار پھر ایک مقامی حجرے میں جمع ہیں۔ ان کے درمیان باہمی مشاورت جاری ہے کہ کورونا کی دوسری لہر سے متاثر ہونے والوں کی کس طرح امداد کی جائے۔ مجمع میں شریک زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ چونکہ سردیاں جاری ہیں تو اگر ان کو خوراک کی راشن کے ساتھ ساتھ رضائیاں بھی دی جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔
تنظیم کے عمائدین اس تجویز کے ساتھ متفق ہوگئے ہیں اور چند ساتھیوں کو علاقے کے لاچار لوگوں کی تفصیلات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
یوتھ آف وزیرستان کے ایک کارکن ہدایت داوڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ پہلے لاک ڈاون میں ملک بھر کی طرح شمالی وزیرستان میں بھی بہت سے مزدور متاثر ہوئے اور ان کا ذریعہ معاش بند ہوا لیکن اس دوران انہوں نے گھر گھر ان مزدوروں کی مدد کی اور ان کی دہلیز پر کھانے پینے کی اشیا پہنچائی۔
ہدایت کے مطابق اس بار وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ متاثرین کو راشن سمیت سردی سے بچنے کے لئے گرم بستر او کمبل فراہم کریں۔
شمالی وزیرستان کی طرح باجوڑ اور اورکزئی میں بھی ایسے مقامی ادارے غریبوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن عبدالمالک اور شعیب پر آج تک کسی کی نظر نہیں پڑی ہیں اور وہ دونوں خوددار بھی امداد کے لئے کسی کے در پر جانے یا ہاتھ پھیلانے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس سٹوری کے لیے باجوڑسے زاہد جان، شمالی وزیرستان سے مزمل داوڑ اور اورکزئی سے محمد نواز اورکزئی نے تفصیلات فراہم کی ہے۔