خوبصورتی میں اپنی مثال آپ چترال کی سڑکوں کا برا حال
تحریر : عدنان الدین رومی
وادی چترال اپنی ثقافت، مہمان نوازی اور خوبصورتی کی وجہ سے دنیا میں ایک الگ مقام رکھتی ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر سے ہزاروں افراد ہر سال اس خوبصورت وادی کے دلکش نظارے دیکھنے کیلیے اس کا رخ کرتے ہیں مگر ہزاروں سیاحوں کے توجہ کا مرکز ہونے کے باوجود یہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گرم چشمہ ، بمبوریت، گولین، شندور اور بونی سب سے زیادہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں کی سٹرکوں کی حالت سب سے ابتر ہیں۔ چترال میں سیاحت کا ایک بہت بڑا کردار کیلاش کمیونٹی بھی ادا کررہی ہے وہاں کی ثقافت اور خوبصورتی دیکھنے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں مگر وہاں کے راستے تنگ ہونے کیساتھ ساتھ انتہائی دشوار اور خراب ہیں جو سیاحوں کیلئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں، حال ہی میں بمبوریت جانے والے ایک سیاح کا کہنا تھا کہ علاقے کی خوبصورتی کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے وہ کسی کو یہاں آنے کا نہیں کہہ سکے گا۔ انہی خراب سٹرکوں کی وجہ سے چترال میں سیاحوں کے تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔اس کے علاوہ آئے روز کوئی نہ کوئی ٹریفک حادثہ لازمی پیش آتا ہے جس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی قیمتی جان ضائع ہوجاتی ہے۔
چترال جس کی اپنی سیاحتی خوبصورتی کی وجہ سے پاکستان کا اہم مقام ہے وہی دوسری جانب چترال کا محل وقوع بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چترال سی پیک کا ایک اہم روٹ ہے جس کا بارڈر گلگت بلتستان کیساتھ ملتا ہے۔ اتنے اہم روٹ کے باوجود اس ضلع کو نظر انداز کرنا انتہائی زیادتی ہے۔ چترال کے عوام حکومت سے اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ اپنی مدد آپ کے تحت سٹرکیں بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ چترال کے علاقے مستوج میں لوگ چندہ کرکے ۳۵ کلومیٹر لمبی سٹرک بنانے کا ارادہ کرچکے ہیں جو حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے مستوج سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے آسرے پہ بیٹھے رہے تو کبھی بھی اپنے جیتے جی اپنے علاقے میں پکی سڑک نہیں دیکھ پائیں گے اس لئے اپنی مدد آپ سٹرک بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے حوالے سے بہت دعوے کرچکے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع چترال میں پانچ کلومیٹر پکی سٹرک بھی آپ کو نہیں ملے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ سیاحت کو فروغ دینے کیلئے ایسے سیاحی مقامات کے روڈ انفراسٹرکچر پر سنجیدگی سے کام کریں تاکہ ملکی و غیر ملکی سیاح ان علاقوں میں آئے جس سے نہ صرف ان علاقوں کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ پاکستان کی معیشت بھی اس سے کافی بہتر ہوسکتی ہیں۔
رقبہ کے لحاظ سے چترال خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے لیکن حکومت کی جانب سے یہاں صرف ایک یونیورسٹی بنائی گئی ہے اور افسوس کا عالم تو یہ ہے جو روڈ چترال یونیورسٹی کی طرف جاتی ہے وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس سے طلبا کو آمدورفت میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ حال ہی میں یونیورسٹی آف چترال کے طلبا نے اسی حوالے سے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ طلبا کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف حکومت سیاحت کو فروغ دینے کے بلند و بالا دعوے کرتی ہے اور ان کی اہلیت کا عالم یہ ہے کہ ان سے ایک روڈ نہیں بنتی۔ چترال ٹاون کے سٹرکوں کی یہ حالت ہے تو چترال کے دور دراز علاقوں کا اور وہاں کے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ ممبر قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی سے جب چترال کے سڑکوں کے حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دروش سے چترال ٹاون تک بننے والی سٹرک بننے میں اپنا کلیدی کردار کیا اور حال ہی میں انہوں نے دروش سے چترال ٹاون تک بننے والی سٹرک کا جائزہ لینے کیلئے وہاں کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سٹرک کے معیار سے انتہائی مایوس ہوئے اور فورا نیشنل ہائے وے اتھارٹی کے چئیرمین سے رابطہ کیا اور شکایت کی کہ سٹرک کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جائے جس پر این ایچ اے کے سربراہ نے ان کو معیار بہتر کرنے کے حوالے سے یقین دہانی کرائی۔ مولانا عبدالاکبر چترالی کا مزید کہنا تھا کہ یہ سٹرک ان کے انتھک محنت کی وجہ سے بن رہی ہے اور اس کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔