‘جنسی ہراسانی کا توڑ طلباء یونین بحالی مارچ میں ہے’
طلباء یونین کی بحالی کےلئے بونیر کے مرکزی بازار سواڑی چوک میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام طلباء یونین کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر مختلف نعرے جیسے طلباء کو مفت انٹرنیٹ کی بحالی، جنسی ہراسانی کی روک تھام طلباء یونین کی بحالی میں، طبقاتی نظام کا خاتمہ، مفت تعلیم ہمارا حق وغیرہ درج تھے۔
مظاہرین میں طلباء کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اس کے علاوہ وکلاء اور سیاسی لوگوں میں سے عوامی ورکرز پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ضلعی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
سٹودنٹس ایکشن کمیٹی کے صدر شبنم بونیری نے ٹی این این کو بتایا کہ ہمارے مظاہرے کا مقصد طلباء یونین کی بحالی اور ان طلبہ سے اظہار یکجہتی ہے جو طلبہ یونین کی بحالی کےلئے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات میں چند چیدہ چیدہ مطالبے یہ ہیں، سب سے پہلے حکومت طلبا کو اجازت دیں کہ وہ الیکشن کرائے اس سے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہوجائے گا، تعلیمی اداروں کی نجکاری ہمیں کسی صورت بھی منظور نہیں ہے لہذا یہ نہ کیا جائے۔
تمام طلباء کو انٹرنیٹ کی سہولت دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور جلد از جلد ہونا چاہئے۔
بیتاب بونیری نے کہا کہ جنسی ہراسانی کو روکنے کےلئے سب سے پہلے طلباء یونین کی بحالی ضروری ہے جب یونین بحال ہوگی تو اس میں سارے طلباء جن کو اپنے مسائل بیان کرنے پر پابندی کا سامنا ہے وہ سب کچھ یونین کے ذریعے بتا سکیں گے۔ بیتاب کہتے ہے کہ اس سے ایسے پروفیسرز یا استاد نمبرز جواز بناکر اپنے ہی طلباء کو بلیک میل کرتے ہیں ایسے لوگوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں آن لائن کلاسز پر حکومت زور دے رہی ہے لیکن یہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے اور اس کے خلاف طلباء آواز نہیں اٹھا سکتے۔ ادارے پرائیوٹ کئے جارہے ہیں لیکن طلباء کچھ نہیں بول سکتے۔ فیسز زیادہ وصول کئے جاتے ہیں لیکن طلباء اس لئے کچھ نہیں بول سکتے کیونکہ ان سے پہلے داخلے کے ساتھ کچھ نہ بولنے کا حلف لیا جاتا ہے اور اس لئے طلبا کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے ضلعی رہنما ملکا خان نے کہا کہ جب سے طلباء کی سیاست پر پابندی عائد کی گئی ہے اس وقت سے لیکر ابھی تک پورا معاشرہ بغیر سیاسی شعور کے ساتھ آگے بڑھا اور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ضیاءالحق کے دور سے لیکر آج تک ہمارے طلباء بغیر سیاسی شعور کے بڑے ہوگئے جس سے نقصان یہ ہوا کہ ابھی جنسی ہراسانی ہو یا دیگر کوئی مسلہ اس سے طلباء اپنے آپ کو نہیں بچاسکتے۔ اگر طلبہ یونین بحال ہوتے تو جنسی ہراسانی سے بچاؤ کے طریقہ کار بھی ان طلباء کے پاس ہوتا۔ ملکا خان نے کہا کہ اس سب مسائل کا حل صرف اور صرف طلبا یونین بحالی ہے۔
پچھلے سال مارچ کے فوائد کے بارے میں جب شبنم بونیری سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ حکومتی وزراء کے ساتھ دیگر سیاسی رہنماؤں نے طلباء یونین کی بحالی کے حق میں بات کی۔ سندھ اسمبلی میں قرارداد بھی پاس ہوا تھا جو ہمارے لئے بہت بڑی بات تھی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج ڈگر کے سامنے ہمارے ساتھیوں نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے بعد میں فیسوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جو کہ اس مارچ کی کامیابی کی ایک نشانی ہے۔
شبنم بونیری نے اپنے مطالبات کی لمبی لسٹ پیش کی جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ طلباء یونین پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور فی الفور ملکی سطح پر الیکشن کرائی جائیں۔ دور دراز علاقوں جن میں بلوچستان، فاٹا، کشمیر، گلگت بلتستان میں طلباء کے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیٹ کی سہولت دے دی جائے۔ کورونا وباء کے دوران تعلیمی ادارے بند ہونے کی صورت میں آن لائن کلاسز کےلئے مفت انٹرنیٹ یقینی بنائی جائے۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ، حالیہ فیسوں میں اضافے کی واپسی، اور مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ تعلیمی اداروں میں حلف نامے کا خاتمہ اور سیاسی سرگرمیوں کو ہٹایا جائے۔ جنسی ہراسانی کے قانون کے تحت کمیٹیاں تشکیل دے دی جائے اور اس میں طلبہ کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ تمام طلباء کو مفت ہاسٹل اور مفت ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔
طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ اور تعلیم کو جدید سائنسی تقاضوں پر استوار کیا جائے۔ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی ہو اور اس میں دور دراز کے علاقوں کی طلباء کےلئے سکالرشپ کوٹہ میں اضافہ کیا جائے جبکہ فارغ التحصیل نوجوانوں کو روزگار یا کم از کم بے روزگار الاؤنس دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں قوم، صنف، زبان یا مذہب کی بنیاد پر طلباء کے ساتھ تعصب اور ہراسانی بند کی جائے۔
مظاہرین نے خبردار کیا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہمارا اگلا لائحہ عمل سن 1968 کی یاد دلائے گی اور ہم بھرپور قوت کے ساتھ اس حکومت کے خلاف نکلیں گے۔