”خواجہ سراؤں و دیگر کی مالی امداد سے دل کو سکون ملا”
محراب آفریدی، عبد الستار
خواجہ سراؤں کو معاشرے میں محض شادی بیاہ کی تقریبات میں ناچ کر دوسروں کو تفریح دینے کا سامان سمجھا جاتا ہے جبکہ یہی رقص ان کا ذریعہ معاش بھی ہے۔
کرونا کی وبائی صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف ہر طبقہ معاشی تنگدستی کا شکار ہوا ہے وہاں شادی بیاہ کی تقریبات نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کا روزگار بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
بہت سارے خواجہ سراء حکومت سے شکایت کر رہے ہیں کہ اس وبائی صورتحال میں ان کے ساتھ کوئی مالی تعاون یا امداد نہیں کی گئی۔
پشاور سے تعلق رکھنی والی نمکین نامی خواجہ سراء کا کہنا ہے کہ خواجہ سراء بجلی، گیس اور ڈیروں کا کرایہ تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں کیونکہ خواجہ سرا تو صرف ناچ گانا ہی کرتے ہیں وہی انکا روزی کا واحد زریعہ ہے جب لاک ڈاون میں اس پر پابندی لگا دی گئی تو بہت خواجہ سرا مالی مشکلات سے دوچار ہوئے اور جو بوتیک یا سلون کا کام کرتے تھے اپنے ورکرز کو تنخواہ دکان مالکان کو کرایہ نہیں دے سکتے تھے جسکی وجہ سے انکو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے تیمور کمال کہتے ہیں کہ کرونا کے باعث سارے طبقے متاثر ہوئے ہیں جبکہ اس ضمن میں خواجہ سراء سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ہے حکومت نے جس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا حالانکہ وہ پرائیویٹ فلیٹس میں رہتے ہیں جبکہ ان کے کرایے اور گیس بجلی کے بل بھی آتے ہیں، ” حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہیے تھی”
مسکان نامی خواجہ سراء کے مطابق عدالت کے احکامات کے باوجود بھی ان سے ایڈوانس کرائے وصول کئے گئے جو ادا نہیں کرسکتے تھے انکو گھروں سے نکال دیا گیا، ویسے بھی اگر نارمل کرایہ 10 ہزار ہوتو خواجہ سرا سے 20 ہزار کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ دوسری جانب اس سخت حالات میں حکومت کی جانب سے انکی کوئی مالی مدد نہیں کی گئ۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ سماجی بہبود کے اعدادوشمار کے مطابق ان کے ساتھ چار سو کے قریب خواجہ سراؤں رجسٹرڈ جبکہ سماجی کارکنوں کے بقول یہ تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جو حکومت کی عدم توجہ کا شکار ہیں اور تاحال مفلسی اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک طرف اگر خواجہ سرا مالی مشکلات سے دوچار تھے اور حکومت کی جانب سے احساس پروگرام اور فلاحی اداروں کی مالی مدد سے محروم رہے ہیں ۔۔تو دوسری جانب کئ فلاحی اداروں نے ان مشکل حالات میں بھر پور اقدامات اٹھائی ہیں ان میں مس مردان ٹاپ لسٹ پر ہیں جنہوں نے نا صرف کثیر تعداد میں خواجہ سرا کی اپنی جیب سے مالی مدد کی بلکہ کئی اور مخیر حضرات سے بھی مالی مدد کروانے میں مدد کیں۔
اس حوالے سے گفتگو میں مشہور خواجہ سراء مس مردان نے بتایا کہ کرونا وباء آنے سے خواجہ سرا سخت تکلیف میں ہیں کیونکہ خواجہ سراؤں کا معاش ڈانس پارٹیوں پر منحصر ہے جبکہ انتظامیہ نے شادیوں اور رش بنانے پر پابندی لگا رکھی تھی جس سے ڈانس پارٹیاں بھی ختم ہو گئی تھیں اور خواجہ سراء سخت معاشی مشکلات کا شکار تھے۔
مس مردان نے کہا کہ انکی مالی حالت دوسرے خواجہ سراؤں کی نسبت اچھی ہے اور اس سے پہلے بھی خواجہ سراؤں اور دوسرے یتیم اور غریب لوگوں کے ساتھ مدد کر چکا ہے لیکن کورونا وباء کے دوران اس نے سوچا کہ خواجہ سراؤں کی آمدنی تو بند ہو چکی ہے تو کیوں نا ان کے ساتھ امداد کی جائے۔
مس مردان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق مردان میں مقیم اپنے خواجہ سراء ساتھیوں کی مدد کی اور جس کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مہیا کی، ”اگر کسی کو راشن کی ضرورت تھی تو اسے راشن دیا اور اگر کسی کو پیسوں کی ضرورت تھی تو اسے پیسے دیئے، اور بھی غریب لوگوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن کچھ خواجہ سراء امداد سے محروم رہ گئے۔”
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ مدد کرنے سے مجھے بھی سکوں ملا۔
مس مردان کے مطابق اب کرونا وباء کے کیسز کم رپورٹ ہو رہے ہیں تو دوبارہ ڈانس پارٹیاں شروع ہو گئی ہیں اور خواجہ سراؤں کا دھندہ شروع ہو گیا ہے جس سے گزارہ چلتا ہے لیکن اب بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں ضرورت مندوں کی خدمت کروں کیونکہ میں نے بھی غربت اور سخت حالات دیکھے ہیں اور ان لوگوں کا مجھے احساس ہے۔
مس مردان نے کہا کہ کرونا وباء ابھی ختم نہیں ہوئی اور خواجہ سراؤں کو محتاط رہنا چاہئے کہ وہ فنکشن میں زیادہ لوگوں سے نہ ملیں اور اپنی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں اور بغیر ضرورت کے بازاروں میں بھی نہ جایا کریں اور اپنے ڈیروں پر رہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں خیبر پختونخوا کے سماجی کارکن اور خواجہ سراؤں کے مسائل پر کام کرنے والے قمرنسیم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 40 ہزار سے زائد خواجہ سرا موجود ہیں جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق صوبے میں 913 اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 27 خواجہ سراؤں کی تعداد ظاہر کی گئی ہے۔
حکومت نے احساس پروگرام کے ذریعے غریب لوگوں کو 12000 روپے دیئے ہیں، اس میں بھی خواجہ سراء محروم ہی رہے، اگرچہ مختلف علاقوں میں غیرسرکاری اداروں اور صاحب استطاعت افراد نے خواجہ سراؤں کے ساتھ تعاون ضرور کیا ہے۔