کیا پی ڈی ایم بھی حکومت کی طرح عوام کی تنقید کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی؟
عبدالقیوم افریدی، سینا نعیم
حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے مسلسل تنقید کے بعد اپنے تمام جلسے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن گزشتہ چند ایک جلسوں کی بنا پر پھر بھی ان پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب حکومت مخالف گیارہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے بھی کورونا وائرس کے دوسرے لہر کے باؤجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
چند روز پہلے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلے کے بعد حکومت نے 21 نومبر کو رشکئ میں منعقدہ جلسے سمیت کورونا کے پھیلاؤ کے اندیشے کے پیش نظر تمام عوامی جلسے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جلسوں کی منسوخی کے باؤجود حکومت پھر بھی تنقید کی زد میں ہے کہ مخالف پارٹیوں کو کورونا کی وجہ سے جلسے منسوخ کرانے کا کہتی رہی لیکن وزیراعظم عمران نے سوات، گلگت بلتستان، جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے دیر اور باجوڑ میں بڑے بڑے عوامی جلسے کئے ہیں۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی فضل الہی نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پچھلے تمام جلسوں میں ایس او پیز کا خیال رکھا گیا تھا۔
جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ کے دیر کے جلسے کی کوریج کرنے والے صحافی ناصر زادہ ان کے دعوے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے جلسے میں ماسک پہنے تھے لیکن سماجی فاصلے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ مزید بتاتے ہیں کہ جلسے میں ہزاروں لوگ موجود تھے جس میں سماجی فاصلہ ممکن تھا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جلسہ سے پہلے اور بعد میں عام عوام اور مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں ہوتی رہی کہ حکومت کس منہ سے اپوزیشن کو جلسوں سے منع کر رہی ہے جبکہ وہ خود کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کو بھی اس ضمن میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
اس حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل سب سے فعال جماعت مسلم لیگ ن کے خیبر پختونخوا کے ترجمان اختیار ولی کہنا ہے کہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جبکہ انہیں گھر بیجھنے کے لئے جلسے منعقد کرنا انتہائی ضروری ہے تا کہ حکومت کو بھی اندازہ ہو کہ عام ان سے کتنے تنگ آگئے ہیں۔
انہوں نے بھی بے بنیاد دعویٰ کیا کہ ان کے جلسوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی اور آئندہ جلسوں میں ان پر مزید سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے لائحہ عمل بنائنگے۔
اختیار ولی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈی ایم نے تحریک شروع کردیا تو حکومت کو کورونا یاد آگیا عوام کو بھی اس بات کا پتہ ہے اور وہ سب جانتے ہیں کیونکہ حکومت اپوزیشن کو منع کرتی ہے لیکن خود بڑے بڑے جلسے کرتے ہیں۔
ایک جانب جہاں حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدانوں کو غیرسنجیدگی پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہاں دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ اپنے مقاصد کے لئے عوام کے در پر جاتے ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں ان کی حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ انہیں عوام کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
پشاور کا فقیر حسین کہتا ہے کہ ان کا سبزی کا ٹھیلا ہے لیکن لاک ڈاؤن میں جب ان کا کاروبار بند ہوگیا تو گھر میں فاقے پڑ گئے۔ "کیش ایمرجنسی پروگرام کے تحت میں نے 12 ہزار روپو کے لئے درخاست دی تھی لیکن ریجیکٹ کی گئی جس کے بعد میں اپنے ایم پی اے اور ایم این اے کے گھر مدد کے لئے گیا لیکن مایوس ہی لوٹا’
فقیر حسین کہتے ہیں کہ ان پر ان سیاستدانوں کی حقیقت کھل گئی ہے کہ صرف اپنے مقصد کے مطلبی ہیں۔
جہاں ایک جانب فقیر حسین اور ان جیسے کئی لوگ سیاستدانوں پر لاک ڈاؤن میں عوام سے رابطہ منقطع کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہاں ایسے بھی سیاست دان ہیں جنہوں نے اس دوران سیاست کو حقیقت میں خدمت خلق کے طور پر لیا اور لوگوں کی امداد کا سلسلہ شروع کیا۔
ایسے سیاستدانوں میں پشاور سے تعلق رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی کی ممبر صوبائی اسمبلی ثمر بلور سرفہرست ہیں۔
ثمر بلور نے لاک ڈاؤن کے دوران نہ صرف عام عوام میں اس وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے اگاہی مہم چلائی بلکہ کئی لوگوں کو ضروری سامان بھی فراہم کیا۔
ثمر ہارون بلور کے مطابق انہوں نے تقریبا 20 ہزار ماسک ، ہینڈ سینیٹائرز او ہینڈ واش یونٹس تقسیم کیے، اسکے ساتھ پرسنل پروٹیکٹیوگیزرز (پی پی ایز) بھی تقسیم کئے جنہیں انہوں نے خود ڈایزائن کیا جسکو بعد میں پاکستان کے ہر تحصیل میونسیپل ایڈمنسٹریشن نے بھی فالو کیا۔
ممبر صوبائی اسمبلی نے بتایا کہ انکے حلقے میں 12 یونین کونسل ہیں اور ہر یونین خود گئی، کورونا وبا کے دنوں میں خود کمپائن میں حصہ لیا اور متاثرہ خاندانو سے ملی اور انکو خود آگاہی دی کہ وہ کسطرح خود کو آئسولیٹ کرسکتے ہیں یا اگر گھر میں کورونا مریض ہوتو گھر پر ان کا کسطرح ممکن علاج کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے پشاور کے ہر ہسپتال کا دورہ کیا اور اس سخت حالات میں عوام کا پورا ساتھ دیا۔ کیونکہ انکے جو بھی ووٹرز تھے انہوں نے سخت حالات میں انکا ساتھ دیا تھا۔ ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور سب کو معلوم تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئیں تو اپوزیشن بنچ پر ہوگی لیکن سب نے پھر بھی انکو ووٹ دیا۔
خواجہ سرا کے حوالے سے ثمر ہارون بلور نے کہا کہ خواجہ سرا سمیت تمام میوزیکل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو کورونا لوگوں کی بھی مدد کی۔