ملالہ یوسفزئی کے آبائی علاقے سوات میں خستہ حال پل کی ویڈیو وائرل، ملالہ اور حکومت تنقید کی زد میں
خالدہ نیاز
نوبیل انعام یافتہ اور تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کی سفیر ملالہ یوسفزئی کے آبائی علاقے سوات مکان باغ میں ایک خستہ حال پل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر طلباء بڑے خطرے کی حالت میں دریا عبور کر رہے ہیں۔ ویڈیو پر مختلف قسم کے آرا سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف چند صارفین نے ملالہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے کہ تعلیم کے لئے اقوام متحدہ کی سفیر ہونے کے باؤجود اپنے علاقے میں تعلیم کے لئے کچھ خاص نہ کرسکیں جبکہ بعض لوگ اس پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ تعلیم کے لئے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرنے کے دعوے تو کرتی ہیں لیکن حقیقی حالت یہ ہے کہ سکولوں کو جانا طلباء کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کی جانب سے سوات کے ایک پل کی ویڈیو شیئرکی گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مینگورہ میں طالبعلم ایک خطرناک پل عبور کرکے سکول پہنچتے ہیں۔ اس ویڈیو کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے ریحام خان نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی اور وزیرمواصلات کے آبائی ضلع میں بچے خطرناک پل کے ذریعے سکول جانے پرمجبور ہیں۔ وہ سوات سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرمواصلات مراد سعید پر تنقید کرتے ہوئی کہتی ہیں کہ یہ تعلیم کی طرف ناقابل اعتبار راستہ ہے۔
https://twitter.com/RehamKhan1/status/1311763361701519361
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پل کی حالت انتہائی خراب ہے اور جگہ جگہ سے ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ٹوئٹر پر ملالہ یوسفزئی اور ان کے والد ضیاء الدین کو مخاطب کرکے پشاور کے صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے کہا ہے کہ مہربانی کرکے اس پل کے لئے کچھ کیجئے کیونکہ ان ننھے بچوں کو بہت مشکل ہوتی ہے اسے پار کرنے میں۔
اس ٹویٹ پر ضیاء الدین کہتے ہیں کہ ان کے اطلاعات کے مطابق مینگورہ مکان باغ میں ایسا کوئی پل نہیں ہے جبکہ رفعت اللہ کی نشاندہی پر کہ یہ پل آمانکوٹ میں ہے، ضیاء الدین نے کہا ہے کہ بالکل یہ امانکوٹ میں مرغزار کے دریا پر بنا ہوا پل ہے۔
دا امان کوٹ دہ، دلتہ فضل حکیم ایم پی اے کور ہم خواہ و شا کیی دہ۔ بہرحال سہ غم خو ئی پکار دہ، گلونہ ماشومان دی، او دمرہ خرچہ پے نہ کیگی، صرف دہ پل دوہ درے سٹیپس جوڑہ ول دی، ستاسو د فوری تپوس مننہ کوم۔
— Rifatullah Orakzai (@RifatOrakzai) October 1, 2020
ویڈیو پرریحام خان کے علاوہ باقی صارفین نے بھی تبصرے کئے ہیں۔ چاند بی بی نامی صارف نے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ملالہ کا کام صرف نکلنا تھا ورنہ اسکی دوستیں اب تک اسی سکول میں پڑھ رہی ہیں!
https://twitter.com/sunochanda12/status/1311582257237430273
زکی نامی صارف نے خیبرپختونخوا حکومت سے مذکورہ پل بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ صوبائی حکومت خیبر پختون خواہ مہربانی کرکے ایک چھوٹا سا پل بنوا دیں قوم کے مستقبل کے معمار اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کے سکول جا رہے ہیں۔
صوبائی حکومت خیبر پختون خواہ مہربانی کرکے ایک چھوٹا سا پل بنوا دیں قوم کے مستقبل کے معمار اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کے سکول جا رہے ہیں۔@ImranKhanPTI @ShireenMazari1@PTIKPOfficial@KPKUpdateshttps://t.co/IUot71VYKt
— زکی 9211 (@Phaki_75) October 1, 2020
چوہدری عبد النعیم جٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پرتنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے پاکستان نے سوات کو خوبصورت، خوشحال اور تعلیم یافتہ بنانے کے لیے جو تبدیلیاں کی ہے اسکی مثال یہ پل ہے۔
An apathy of local admin for not repairing the bridge( costing max Rs50k) unfortunately may cost young students their lives. But who cares !!! https://t.co/AlMLcMy8Ss
— Maqsood A. Butt FCA (@MaqsoodButtFca) October 2, 2020
مقصود اے بٹ نامی صارف نے پل پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پل کی مرمت پرمحض 50 ہزار روپے کی لاگت آسکتی ہے لیکن یہ مقامی انتظامیہ کی بے حسی ہے کہ پل کو ابھی تک نہیں بنایا اور بچے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر پل عبور کرنے پرمجبور ہیں لیکن کس کو اس کی پروا ہے؟
https://twitter.com/AbdulNaeemJutt/status/1311765717524586498
خلیل نے ان بچوں کو داد دی ہے جو روزانہ سکول آتے اور جاتے وقت یہ خطرناک پل عبور کرتے ہیں۔
Solute to these students#31NightsOfHalloween #feelthebreast https://t.co/cCQ3X5ZmoU
— Khalil Ullah (@KhalilullahPFL) October 2, 2020
خیال رہے کہ سال 2014 میں ملالہ یوسفزئی نے کم عمر ترین نوبل انعام جیتنے کا بھی اعزاز حاصل کیا، تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بھارت کے کیلاش ستیارتھی نے مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام 2014ء میں جیتا تھا۔
ملالہ یوسفزئی اکتوبر 2012ء میں اس وقت توجہ کا مرکز بنیں جب سکول سے گھر جاتے ہوئے سوات میں طالبان شدت پسندوں نے انھیں فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔
ایک گولی اُن کے سر میں بھی لگی، ملک میں ابتدائی علاج کے بعد اُنھیں ایک خصوصی طیارے کے ذریعے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا جہاں صحتیابی کے بعد نہ صرف اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ملالہ فاؤنڈیشن کے ذریعے دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔