"نومولود” تحصیل چغرزی نئے منتظم کے لئے امتحان سے کم نہیں ہوگا
سٹیزن جرنلسٹ عظمت تنہا
کسی بھی ادارے یا محکمے کو چلانا آسان کام نہیں ہوتا اور پھر جب آپ کی تعیناتی ایسی جگہ ہوجائے جو آپ کے لئے نئی ہو اور اس سے بڑھ کر جب وہ "نو مولود” ہو مطلب ایک پورے محکمے کو نئی روح دے کر بنیاد سے اٹھانا، اسے ایک مقام دلانا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انتہائی کٹھن اور صبر آزما سفر ہوتا ہے۔
ایسے ہی صورتحال کا سامنا ضلع بونیر کے "نو مولود” تحصیل چغرزی کے پہلے تعینات شدہ اسسٹنٹ کمشنر اسحاق احمد صاحب نے کرنا ہے۔ جن کی تعیناتی 27 جولائی کو اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خوا نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کی ہے۔
تحصیل چغرزی چار یونین کونسل سیورے، گلبانڈی، بٹاڑہ اور پاندیڑ پر مشتمل تحصیل ہے۔ 2017 مردم شماری کے مطابق کل 11767 گھرانے اور 109558 کل آبادی ہے اور 2018 عام انتخابات کے مطابق کل ووٹرز کی تعداد 52 ہزار سے زائد ہے۔
تحصیل چغرزی ضلع شانگلہ، ضلع تور غر اور ضلع بونیر کے تحصیل ڈگر، گاگرہ اور مندنڑ کے درمیان واقع ہے۔یہ بلند و بالا پہاڑوں، بہتی ندیوں، ابشاروں، گھنے جنگلات، معدنیات اور دلفریب سیاحتی مقامات پر مشتمل قدرت کا عظیم الشان تخفہ ہے۔
یہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز، باہمت، محنت کش، با کردار اور باوقار لوگ ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ٹی ایم او کے لئے لوگوں کی طرف سے یا لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسلہ نہیں ہے البتہ جن مسائل کا سامنا ہے وہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے انتظامی مسائل ہیں جن کا حل ناگزیر ہے۔ کوئی بھی ادارہ یا محکمہ تب کامیاب سمجھا جاتا ہے جب وہ اپنے اخراجات پورا کرکے سرپلس میں چل رہا ہو اس لحاظ سے اگر تحصیل کے نظام کو دیکھا جائے تو تمام اخراجات کا ذمہ ٹی ایم اے کی ریونیو کلیکشن سے منسلک ہے چغرزی چونکہ نیا تحصیل ہے اور پہلے سے موجود بدال کے مقام پر ہونیوالے ہفتہ وار مویشی میلہ کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں رکھتا۔
انتظامی امور چلانے کے لئے آمدن کا زیادہ مقدار ہونا انتہائی لازمی ہے۔
میری تھیوری یہ ہے کہ "جو مسلے کا حل نہیں دے سکتا وہ مسلہ پیدا بھی نہ کرے” اسی لئے ذیل تین مراحل میں ان مسائل کے حل کے لئے تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح چغرزی کے وسائل کو استعمال کرکے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
پہلا مرحلہ:
پہلے مرحلے میں کم اخراجات سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے کے لئے ذیل منصوبوں پر فوری طور پر ذیل کام کرنا چاہئیے۔
1۔سائن بورڈز کی تعداد کو جتنا ہوسکے بڑھایا جائے کیونکہ چغرزی نئ ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے مخلتف میڈیکل سنٹرز، سکولز، بازار وغیرہ آئے روز بنتے اور بڑھتے جارہے ہیں ایڈورٹائزنگ بورڈز سے ریونیو حاصل ہوسکتی ہے۔
2۔ لوکل ٹرانسپورٹ سروس کا آغاز کیا جائے اس مقصد سے گلبانڈی میں ایک مین ٹرانسپورٹ اڈہ اور شہیدہ سر، غازی بانڈہ اور بدال میں چھوٹے ٹرانسپورٹ اڈے بنائے جائے جو ریوینو کا ذریعہ بنے۔
3۔ ٹی ایم اے کے زیر نگرانی شہیدہ سر اور غازی بانڈہ یا بٹاڑہ میں ہفتہ وار میلوں کا بندوبست کیا جائے بدال میں موجود مویشی میلہ کی نوعیت کو تبدیل کرکے ہر قسم کے اشیاء کی خرید و فروخت کی اجازت دی جائے۔
4۔ چغرزی سے ٹمبر مافیا قیمتی لکڑی باہر لے جاتے ہیں اسی غرض سے بدال، مسلم کنڈاو (ہندوانو کنڈاو) اور ایٹئ کے مقام پر ٹیکس بوتھ لگائے جائے جو فکس ٹیکس وصول کرے۔
5۔چغرزی سے نکلنے والے ماربل، ریت، پتھر اور کرش پر بھی فکس ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی پھل اور سبزیاں جو تحصیل سے باہر جاتی ہیں پر بھی فکس ٹیکس عائد کیا جائے۔
دوسرا مرحلہ:
چغرزی کے ریونیو جنریشن کا سب سے بڑا ذریعہ ٹورازم ہوسکتا ہے اس کے لئے پہلے سے تیار سپاٹس عوام کے لئے کھول دیئے جائے جس میں شہیدہ کیمپنگ پاڈز شامل ہیں اور ساتھ میں فوری طور پر شہیدہ سر میں فیملی کے لئے پارک بنایا جائے جو کہ جھولوں اور دوسرے تفریحی ساز و سامان سے مزین ہو۔
تیسرا مرحلہ:
تیسرا مرحلہ لانگ ٹرم پلاننگ پر مشتمل ہے جس سے چغرزی کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ چغرزی بنیادی طور پر ٹورازم گڑ ہے اس لحاظ ذیل چند مقامات کی تزئین و آرائش پر کام کرکے ریونیو کی بڑی مقدار حاصل کی جاسکتی ہے اور لوگوں کو بے تحاشہ روزگار کے مواقع بھی میسر ہوجائینگے۔
1۔ یونین کونسل بٹاڑہ کے ساتھ "درگہ چینہ” کے مقام پر ایک زبردست تفریحی مقام موجود ہے جسے فیملی پارک کا درجہ دے کر سہولیات دئیے جائے۔ اور صوبائی حکومت کی مدد سے گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جائے۔
2۔ یونین کونسل پاندیڑ میں پہلے سے ایکسپلور شدہ "شنگڑہ کنڈاو” جیسا خوبصورت اور پر فضا مقام موجود ہے جہاں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مقامات جو ایکسپلور نہیں ہوئے ان میں "ڈوماں اور راج کند” جوکہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ (ڈوما جو کوہستانیوں کا سردار تھا اور یوسفزئی کے ذیلی قبیلہ عیسی زئی میں سے حسن زئی قوم کے ایک شخص کی تیر سے مارا گیا تھا۔ راج کند ان کے حکومت کا مرکز تھا اسی لحاظ سے یہاں تاریخی سیاحت کا فروغ بھی ممکن ہے) "بحوالہ کتاب العبرہ”۔
ساتھ ہی فیزہ کے مقام پر "مشہور و معروف "فیزہ بابا” کا مزار ہے جس کا انتظام بھی تحصیل انتظامیہ کی تحویل میں لیا جائے۔ اسی یونین کونسل کا ایک اور پر فضا مقام "شاہی سر” ہے جو نام کی طرح شاہانہ احساس رکھتا ہے یہاں سے بونیر کے ساتھ ساتھ تور غر کے دامن میں بہتے دریائے سندھ (آباسین) اور دور دراز کے علاقوں کے دلکش مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔
یونین کونسل گلبانڈی جو کہ تحصیل کا مرکزی یونین کونسل بھی ہے "چڑونہ” کے مقام پر انتہائی دلفریب آبشاروں سے قدرت نے نوازا ہے "چڑ” پشتو میں "آبشار” کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ "ڈاک سر” جو کہ ایک ایسا سیاحتی مقام ہے جسے نیشنل پارک بھی بنایا جاسکتا ہے یہ قسم قسم کے جانور، چرند پرند، کارآمد جڑی بوٹیاں اور بلند و بالا چیڑ و صنوبر کے درختوں پر مشتمل قدرت کا شاہکار ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ حال ہی میں ڈاک سر کے لئے صوبائی حکومت نے سڑک پر کام شروع کیا ہے۔اس مقام سے سوات، صوابی، شانگلہ، ہری پور اور ضلع تور غر اور مانسہرہ تک کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
یونین کونسل سیورے میں شاید سب سے ذیادہ ٹورازم کے مقامات موجود ہے ان میں شہیدہ سر کا میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں اور یہاں رواں سال دس سے زائد کیمپنگ پاڈز لگائے گئے ہیں جو سنگل اور ڈبل بڈز پر مشتمل ہے لیکن جلد از جلد شہیدہ سر میں فیملی پارک بنانا چاہئیے کیونکہ یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں اب تک رسائی سب سے آسان ہے۔ اس کے علاوہ مسلم کنڈاو جو کہ ہندوانو کنڈاو کے نام سے جانا جاتا تھا یہ بھی بدھ مت، سکھ مت دور کا تاریخی اور پرسکون مقام ہے۔ اسی راستے سرکوپ(سربابا) تک جایا جاسکتا ہے جو پندرھویں سولہویں صدی کے جنگوں کا تاریخی مقام ہے۔ یونین کونسل سیورے کا ایک اور پر فضا مقام جو قدرتی چشموں اور گھنے جنگلات سے مالا مال ہے وہ "برتیراج سر” ہے یہاں کی بلندی تقریبا 7 ہزار فٹ ہے اور یہاں سے بھی کئ اضلاع و آباسین کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں ہی ذکر کیا تھا کہ چغرزی بنیادی طور پر ٹورازم گڑ ہے ان مقامات کے علاوہ کئی اور پرکشش مقامات ہے جو کہ لوگوں کے روزگار اور تحصیل انتظامیہ کے لئے کارآمد بنائے جاسکتے ہیں۔
زرعی لحاظ سے بھی چغرزی کی مٹی بڑی زرخیز ہے یہاں گندم، مکئ، جو وغیرہ کاشت کی جاتی ہے۔ سن فلاور، آلو، مونگ پھلی اور چائے کاشت کی جاسکتی ہے کیونکہ علاقے کا موسم انتہائی مناسب ہے۔
میووں میں یہاں جاپانی پھل، اڑو، ناشپاتی وغیرہ پہلے سے کافی مقدار میں موجود ہے اور انجیر، مالٹا اور خشک میوہ جات والے پھلوں کے باغات لگائے جاسکتے ہیں جس کے لئے زمین زرخیز ہے۔
سپورٹس ایکٹیویٹیز کی مدد سے بھی بھی ریوینو جنریٹ کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں سپورٹس کا بے انتہا ٹیلنٹ موجود ہے محمد علی (پاکستان انڈر 19 ورلڈ کپ کھیل چکے ہے) ضیاءالحق، شاہد خان، ممتاز خان، برکت علی وغیرہ ڈومیسٹک لیول پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
لوکل پراڈکٹس یعنی گھروں میں ہاتھوں سے بنائی جانیوالی اشیاء کو مقامی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ دوسری مارکیٹوں تک رسائی ممکن بنائی جائے اور ان کو مستقل صنعت کا درجہ دیا جائے تو لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہوگا۔
قدرتی ماحول کا تحفظ بھی تحصیل انتظامیہ کے ذمے آتا ہے جنگلات کی کٹائی اور شکار پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔
ماربل مائننگ جو کہ کڑہ، کڑم اور بیمپور میں شروع ہوچکی ان میں بارود کے استعمال پر پابندی لگا دیا جائے اور نئے کان جو بر شمنال کے مضافات میں شروع ہونے کو ہے ان کو بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا پابند کیا جائے۔
چغرزی کے حدود میں ماربل فیکٹری لگانے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے تاکہ چشموں سے نکلتا پانی خالص اور صاف و شفاف رہے اور ابی حیات محفوظ رہے، اور انرجی کرائسز سے بھی بچا جا سکے۔
یہ سفر طویل، مشکل اور کٹھن ہوسکتا ہے لیکن خالص نیت اور خلوص دل سے ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ہاں یہ ظاہر ہے کہ تحصیل یا ضلعی انتظامیہ کے لئے اکیلے ممکن نہیں ہے تاہم اس میں صوبائی حکومت پر سب سے ذیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہاں کے منتخب ایم پی اے جناب سید فخر جہاں (پی کے۔21) اور ایم این نے جناب شیر اکبر خان (این اے۔9) کو تحصیل انتظامیہ کو انتظامیہ کو ہر قسم کی مدد فراہم کرنی ہوگی۔
چغرزی ایک پرکشش تحصیل ہے ان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کو چینلائز کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے تحصیل انتظامیہ کو بھی چاہئیے کہ انتظامیہ کے لئے آبادی کی تکمیل تک وہ کم سے کم پہلے بیان کیے گئے چھوٹے منصوبوں پر کام شروع کرکے اپنی پاوں جمانے کی جگہ بنائے تاکہ اس پر قدم رکھ کر مضبوط تحصیل کا قیام ممکن ہوسکے۔