دروش کے اوسیک پُل پر 70 سال بعد کام شروع
چترال کے تاریخی قصبے دروش کے اوسیک پُل پر 70 سال بعد کام شروع ہوا۔ موجودہ صوبائی حکومت نے پہلی بار آر سی سی پل کیلئے دس کروڑ روپے منظور کرکے کام شروع کروایا۔
چترال کے پہلے شہر اور تاریحی قصبے دروش میں اوسیک کے مقام پر دریائے چترال پر نہایت بوسیدہ پل موت کے کنویں سے کم نہیں تھا۔ لکڑیوں کا یہ جھولا پُل 1982 میں بنایا گیا تھا اس سے پہلے برطانیہ دور حکومت میں یہاں پیدل کا چھوٹا سا پل تھا۔ اس پل میں کئی حادثات بھی پیش آچکے ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے کئی مرتبہ اس کی پحتہ تعمیر کیلئے آواز اٹھایا احتجاج کیا مگر کسی نے نہیں سنا۔
مقامی ذرائع کے مطابق اسی جگہ کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں تاہم موجودہ حکومت نے اوسیک کے مقام پر دریائے چترال پر پختہ یعنی RCCپل تعمیر کرنے کیلئے دس کروڑ روپے کا فنڈ دیکر کام بھی شروع کروایا۔ دروش سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء حاجی گل نواز نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ جب وزیرزادہ کیلاش کی خصوصی نشست پر رکن قومی اسمبلی بن گیا تو انہوں نے مجھ سے میگا پراجیکٹ کا پوچھا اور میری درخواست پر انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے رابطہ کرکے اس پل کیلئے دس کروڑ روپے منظور کروائے۔
اس کے علاوہ جنجیریت کوہ روڈ کیلئے سولہ کروڑ روپے، سویر روڈ کیلئے دو کروڑ روپے، نگر ارسون کیلئے بھی سڑک اور پل منظور ہوئے۔ ارندو روڈ کیلئے دو ارب روپے اور مڈگلشٹ کیلئے تین ارب روپے کا پیکیج وزیر اعلیٰ نے منظور کئے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا شکریہ ادا کیا جو چترال کے ساتھ خصوصی محبت رکھتے ہیں اور انہوں نے تیس کروڑ روپے دیگر منصوبوں کیلئے منظور کئے اسی طرح چترال میں سپورٹس کمپلکس کیلئے بیس کروڑ روپے بھی منظور کئے ہیں اور بہت جلد اس پر کام شروع ہوکر لوگوں کو حقیقی تبدیلی نظر آئے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے کہا کہ چترال کی بدقسمتی یہ ہے کہ صوبے میں کسی اور کی حکومت ہوتی ہے مگر یہ لوگ کسی مخالف پارٹی کے امیدوار کو صوبائی اسمبلی میں بھیجتے ہیں اسی طرح مرکز میں بھی حکومتی پارٹی کو چھوڑ کر محالف پارٹی کے امیدوار کو ایم این اے بناتے ہیں۔
فیصل شہزاد کا تعلق اوسیک سے ہے انہوں نے اس پل کی تعمیر شروع ہونے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ محمد یامین جو اوسیک کا رہایشی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس پل کی حالت نہایت ناگفتہ بہہ تھی اس پر بہت لوڈ تھا اور صبح کے وقت بچے موٹر سائیکل یا گاڑی میں بیٹھ کر نہیں جاتے تھے ان کو ڈر لگتا تھا اور اکثر بچے بچیاں پیدل اس پل کو عبور کرتے تھے اب اس پر کام کا آغا ز ہوچکا ہے جس علاقے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اس پل پر اوسیک، ڈوم شغور، جنجیریت، سویر، جنجیریت کوہ تک لوگ گزرتے تھے اور لوڈ گاڑی اس پر نہیں جاسکتے تھے۔ لوگ اپنا سامان اتارکر پیدل لانے پر مجبور تھے اب جب یہ آر سی سی بنے گا تو لوگ ٹرکوں میں اپنی ضرورت کا سامان گھر کے دہلیز تک پہنچا سکیں گے۔
تاہم علاقے کے لوگوں نے محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پُل کی تعمیر کے کام کا سختی سے نگرانی کرے کیونکہ اسی ٹھیکدار کا اوویر میں بھی ایک پختہ پل تعمیرکیا ہے جس کا ایک حصہ گر کر ٹوٹ چکا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پل بھی اس کی طرح قبل از وقت ٹوٹ جائے۔