کورونا وباء، دنیا بھر کے صحافیوں کو درپیش چیلنجز اور صحافت کا مستقبل!
آئی سی ایف جے
صحافت اور کورونا بحران پر کئے گئے عالمی سروے کے ابتدائی نتائج کے مطابق دنیا بھر میں صحافی اس مہلک وباء کی رپورٹنگ کرتے وقت غلط معلومات کی بھرمار سے لے کر بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرات اور ذہنی یا نفسیاتی بحران سمیت ہزارہا خطرناک چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اس شعبہ (صحافت) پر پڑنے والے اثرات کو جاننے کے لئے انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) اور کولمبیا یونیورسٹی کے ‘ٹوو سنٹر فار ڈیجیٹل جرنلزم’ کے اشتراک سے اپریل 2020 میں جرنلزم اینڈ دی پینڈیمک پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ دنیا کے 125 ممالک سے انگریزی بولنے والے 14 سو سے زائد صحافیوں کی آراء پر مبنی پراجیکٹ کی پہلی رپورٹ میں وباء کی پہلی لہر کے دوران صحافت کو درپیش تشویشناک رکاوٹیں اور خطرات سامنے آئے ہیں۔
زیادہ پریشان کن نتائج میں سے ایک صحافیوں (چھیالیس فیصد) کی جانب سے سیاستدانوں اور منتخب اہلکاروں یا حکام کی غلط معلومات دینے والے سرفہرست ذرائع کے طور پر نشاندہی ہے جس سے حکومتوں پر عدم اعتماد کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ (تاہم) عین اسی وقت ایک تہائی صحافیوں کا کہنا تھا کہ وباء پر رپورٹنگ کے حوالے سے ان کا زیادہ تر انحصار حکومتی ذرائع اور حکام کے بیانات پر ہی ہوتا ہے۔
ایک اور متعلقہ بنیادی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ صحافیوں کی اکثریت (چھیاسٹھ فیصد) نے فیس بک کی بطور سب سے زیادہ غلط معلومات دینے والے ذرائع کے نشاندہی کی تاہم پھر بھی 32 فیصد صحافیوں کے مطابق آڈینس کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لئے ان کا بنیادی انحصار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہی ہے۔
اس جاری بحران کو کور کرنے والے صحافیوں کے لئے دیگر تشویشناک نتائج درج ذیل ہیں۔
کورونا وباء پر کام کرنے والے 70 فیصد صحافیوں نے نفسیاتی اور جذباتی اثرات کو اپنے کام کا سب سے مشکل ترین پہلو قرار دیا۔
30 فیصد کے مطابق کورونا کی پہلی لہر کے دوران ان کے نئے اداروں نے انہیں حفاظتی سامان میں سے کوئی ایک بھی چیز فراہم نہیں کی۔
اپنے اداروں کے خسارے سے آگاہ 17 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ وباء کے آغاز سے لے کر (ادارے کے) ریونیو میں 75 فیصد کمی آئی، 43 فیصد نے بتایا کہ آمدنی (ادارے کی) آدھی ہو کر رہ گئی تھی۔
81 فیصد نے بتایا کہ کم از کم ہفتے میں ایک بار انہیں غلط معلومات سے واسطہ پڑتا ہے، ایک تہائی سے زائد (28 فیصد) نے بتایا کہ روزانہ کئی کئی بار انہیں غلط معلومات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
20 فیصد نے بتایا کہ وباء کے دوران ان کا آن لائن ہراسگی کا تجربہ اور بھی خراب رہا۔
48 فیصد نے بتایا کہ ان کے ذرائع نے اس خوف کا اظہار کیا کہ وباء کے دوران صحافیوں سے بات کرنے کے نتائج/ردعمل کا انہیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن تصویر مکمل طور پر تاریک بھی نہیں ہے۔ (ان) چیلنجز کے باوجود صحافیوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ کچھ وجوہات کی بناء پر وہ خاصے پرامید بھی ہیں۔
43 فیصد نے بتایا کہ وباء کی پہلی لہر کے دوران انہیں محسوس ہوا کہ آڈینس کے ان کی صحافت یا ان کے ادارے پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
61 فیصد نے بتایا کہ اس وباء کے دوران انہوں نے صحافت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ میں اضافہ یا تقویت محسوس کی ہے۔
یہ تحقیق آئی سی ایف جے کی گلوبل ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر جولی پوسیٹی، صحافت پڑھانے والے پروفیسر لینرڈ اور ٹو سنٹر فار ڈیجیٹل جرنلزم کی ڈائریکٹر ایمیلی بیل اور ٹو سنٹر فار ڈیجیٹل جرنلزم میں ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر پیٹ براؤن نے کی ہے۔
ڈیٹا پر مبنی ریسرچ سیریز کی یہ پہلی رپورٹ ہے (جو چھ دیگر زبانوں میں ہونے والے سرویز سے بھی نتائج اخذ کرے گی) جو کورونا کی رپورٹنگ میں درپیش مشکلات کے حل تلاش کرے گی اور بعد از وباء کی صحافت کے مستقبل کے لئے رہنمائی فراہم کرے گی۔
دی جرنلزم اینڈ دی پینڈیمک پراجیکٹ کو عالمی بشر دوست تنظیم ”لومیناٹی” کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ صحافوں کے تحفظ کے لئےقائم دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) اس میں پارٹنر ادارہ ہے۔