افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ پر قاتلانہ حملہ، 27 افراد ہلاک، درجنوں زخمی
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دارالحکومت کابل میں منعقدہ تقریب میں مسلح حملہ آوروں کے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جبکہ حملے میں 27 افراد ہلاک اور دودرجن سے زائد زخمی ہو گئے۔
افغان حکام کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تقریب کے دوران کیے گئے حملے میں کم از کم 27 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہو گئے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان وحیداللہ مایر نے حملے میں 27 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
تقریب میں ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ متعدد اہم شخصیات موجود تھیں جو خوش قسمتی سے ان میں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے کہا کہ افغان سیکیورٹی فورسز کو زیر تعمیر اپارٹمنٹ کی عمارت سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ امریکا اور طالبان کے درمیان امریکی افواج کے ملک کے انخلا کے حوالے سے گزشتہ ہفتے ہونے والے امن معاہدے کے بعد دارالحکومت کابل میں کیا گیا سب سے بڑا حملہ ہے, طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں ہیں۔
چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون کوازون نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا آغاز ایک دھماکے کے ساتھ ہوا جو ممکنہ طور پر راکٹ گرنے کی وجہ سے ہوا تھا، یہ راکٹ جس جگہ گرا اس کے قریب ہی عبداللہ عبداللہ اور دیگر مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ تقریب ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کے سلسلے میں منعقد کی گئی جنہیں طالبان کی جانب سے قیدی بنائے جانے کے بعد 1995 میں قتل کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
امن معاہدہ، جامعہ پشاور کے طلبہ کیا کہتے ہیں؟
امن معاہدے کے حوالے سے افغان خواتین کے تاثرات
"بدامنی سے تعلیم حاصل کرنے کا میرا خواب ادھورہ رہ گیا”
عبداللہ عبداللہ افغانستان کے گزشتہ تینوں انتخابات میں اشرف غنی کے بعد زیادہ ووٹ لینے والوں میں دوسرے نمبر پر رہے تھے اور ان تمام انتخابات کے نتائج پر انہوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ انسانیت اور افغانستان کے قومی اتحاد پر حملہ ہے۔
یاد رہے کہ 4 مارچ کو بھی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے چار روز بعد طالبان کے تازہ حملوں میں افغان سکیورٹی فورسز کے 20 اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہ امریکی فوج نے بھی طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ تاریخ رقم کر دی گئی تھی۔
امن معاہدے کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دیگر تنظیموں کے نیٹ ورک پر پابندی ہوگی، دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
معاہدے کے مطابق امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے انخلاء مکمل کرے گی اور فریقین جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
تاہم امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی افغان صدر اشرف غنی جنگ بندی کی اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے۔
افغان صدر اشرف غنی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا، طالبان کے قیدیوں کا معاملہ افغانستان کے عوام کا حق خود ارادیت ہے۔
اشرف غنی نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات کی پیشگی شرط نہیں بن سکتا، البتہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ انٹر ا افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
قبل ازیں افغان طالبان نے افغان دھڑوں کے ممکنہ مذاکرات میں اتفاق رائے کی صورت میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت میں شمولیت پر اصولی طور پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم صدر اشرف غنی کے معاہدے کی محولہ بالا شرط سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ امن معاہدے پردستخط کے باوجود افغان فورسز کیخلاف کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغان طالبان کا کہنا تھا کہ امریکا سے ہونے والے معاہدے سے قبل جو 7 روزہ عارضی جنگ بندی کی گئی تھی اس کا دورانیہ اب ختم ہوچکا ہے لہٰذا افغان فورسز کیخلاف اپنی معمول کی کارروائیاں دوبارہ شروع کررہے ہیں۔