بین الاقوامی

امن معاہدہ، جامعہ پشاور کے افغان طلبہ کیا کہتے ہیں؟

عثمان خان

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ پر 29 فروری کو دستخط ہوں گے۔

جمعہ کو ایک بیان میں امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کیلئے طویل مذاکرات ہوئے جس کا مقصد جنگ کے خاتمے کیلئے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے، اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادیوں کے فوجیوں کی تعداد کو کم کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی دہشتگرد گروپ افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ کرے، حالیہ ہفتوں میں افغانستان کی حکومت کے مشورے سے امریکی مذاکرات کار قطر میں طالبان کے ساتھ ایک مفاہمت پر پہنچے جس کا مقصد پورے افغانستان میں تشدد میں نمایاں کمی لانا ہے، تشدد کے کمی کے معاہدے پر کامیابی سے عمل درآمد کے بعد طالبان اور امریکہ امن عمل میں پیشرفت کی طرف جائیں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ ہم 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کریں گے اس کے فوراً بعد بین الافغانی مذاکرات شروع ہوں گے اور مکمل و پائیدار جنگ شروع ہو جائے گی، مستقبل کیلئے افغانستان میں سیاسی مستقبل کیلئے ایک روڈ میپ بھی بنایا جائے گا۔

 

ٹی این این نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں امن معاہدے کے بعد اس معاہدے کے پاک افغان تعلقات پر کیا اثرات ہوں گے اور اس حوالے سے پشاور میں تعلیم حاصل کرنے والے افغان طلبہ کیا کہتے ہیں۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے افغان طالبعلم امین وردگ کے مطابق پچھلے سات دن جنگ بندی پر افغانستان میں لوگ بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور اگر مستقل طور پر ملک میں امن یقینی ہو جاتا ہے تو اس کے پڑوسی ممالک اور خاص کر برادر اسلامی ملک پاکستان پر بہت دور رس اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

امین وردگ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں بہت سے اقدار یا خصوصیات مشترک ہیں جیسا کہ دونوں اسلامی ممالک ہیں اور ایک دوسرے سے مذہبی اور ثقافتی رشتے ہیں، افغانستان کے لوگ پاکستان سے گلہ کرتے ہیں کہ ایک قوی اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو چاہیے کے وہ دنیا پر یہ بات آشکارہ کرے کہ افغانستان میں جنگ نہیں ہونی چایئے بلکہ اس جنگ زدہ ملک میں اب امن کیلے راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔

وردگ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی صورت میں دونوں ممالک کے عوام میں ہم آہنگی (اولسی تڑون) اور بڑھے گی اور مضبوط ہو جائے گی اور ایک دوسرے کیلئے نیت بھی صاف ہو جائے گی۔

افغانستان کے وردگ صوبے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم آگے بتاتے ہیں کہ افغان امن معاہدے کی صورت میں اس کے پاکستان میں آباد افغان مہاجرین پر بھی بہت اچھے اثرات پڑیں گے اور ان کی واپسی کے عمل میں تیزی آئے گی کیونکہ ہر افغان چاہتا ہے کے ان کے ملک امن ہو اور اپنی بقایا زندگی کے دن رات وہاں اپنے آباو اجداد کے ملک میں گزار سکیں، ان لوگوں نے افغانستان میں تباہ کن جنگ کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑا ہے اور مجبوری کی حالت میں ہجرت کی ہے۔

امین کے مطابق جب افغان دھرتی پر امن آئے گا تو پاکستان میں آباد رفیوجیز اپنی مرضی سے افغانستان کا رخ کریں گے اور اس عمل میں تیزی آ جائے گی، اس کے علاوہ جنگ کی حالت میں بھی سارے مہاجرین واپس اپنے ملک منتقل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات میں پچھلے کچھ عرصے سے تناؤ ضرور آیا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں پر کئی دہائیوں سے جاری جنگ اور شورش ہے، اگر وہاں پر آمن آتا ہے تو پھر سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں استحکام آئے گا اور تعلقات بحال ہو جائیں گے۔

سید عمر فاروق، جن کا تعلق افغانستان کے شہر جلال آباد سے ہے اور اس وقت جامعہ پشاور میں شعبہ فارمیسی کے طالبعلم ہیں، ٹی این این کو بتاتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہے، اگر افغان امن معاہدے کی صورت میں امن آتا ہے تو ضرور اس کے اثرات پاکستان پر ہوں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات اور روابط میں تیزی سے مثبت سمت میں تبدلی آئے گی، بعض سیاسی وجوہات کی وجہ سے ضرور پاک افغان تعلقات میں بریک آئی ہے لیکن اب مجھے قوی یقین ہے کہ ماضی کی تلخیاں اب دوستی اور بھائی چارے میں تبدیل ہوں گی۔

سید عمر فاروق نے یہ بھی بتایا کہ جب افغانستان میں امن آئے گا تو اس کی برکت سے پاک افغان تجارت بڑے پیمانے پر بڑھے گی کیونکہ پھر دونوں ممالک کا ایک دوسر کیلئے دلوں میں فتور نہیں ہو گا اور آزادانہ طور پر دونوں ممالک کے بزنس مین سفر کریں گے کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں تجارت کا بہت پوٹینشل ہے اگر حکمران اس پر توجہ دیں تو۔

عمر آگے بتاتے ہیں کہ کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت ہو اس لئے وہ اس کام میں مگن ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوں۔

محمد اسماعیل کا تعلق ننگرہار سے ہے اور پشاور یونیورسٹی میں فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ ہیں اور افغان امن معاہدے سے بہت امیدیں رکھی ہیں، ان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے عوام ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کے درمیان عزت اور بھائی چارے کا مضبوط رشتہ ہے جس کی بنیادی وجہ اسلام اور صدیوں سے جاری ثقافتی رشتے ہیں۔

اسماعیل بتاتے ہیں کہ جب اس امن معاہدے میں کچھ دنوں سے جنگ بندی شروع ہوئی ہے تو افغانستان میں امن کی فضا بنتی جا رہی ہے اور اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ لوگ امن کیلئے اللہ کے حضور جانور ذبح کر رہے ہیں تاکہ ملک میں دائمی امن آ جائے کیونکہ افغانستان کے لوگ کئی عشروں سے جنگ کے ستائے ہوئے ہیں اور ہر گھر سے کسی نہ کسی شکل میں قربانی دی گئی ہے اور بہت ساروں کے اپنے پیارے اس جنگ کی نذر ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان امن معاہدے کیلئے زور و شور سے تیاریاں جاری ہیں اور مختلف ممالک کے اعلی حکام وہاں پر جمع ہو رہے ہیں، قطر حکومت نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس اعلی پائے کی تقریب میں شمولیت کی خصوصی دعوت دی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے وزارت خارجہ نے بھی یہ کہا تھا کہ پاکستان کی موجودگی میں افغان امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button