امریکی انخلاء کی شرط پر طالبان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار
افغان حکومتی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے کارروائیوں میں واضح کمی کی صورت میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط رواں ماہ ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی فوج بتدریج دستبردار ہوگی۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت اور مغربی سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی کارروائیوں میں واضح کمی کی تو پھر فروری میں ہی معاہدے پر دستخط ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے میں جاری مذاکرات میں بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔
رپورٹس کے مطابق فریقین میں مذاکرات میں تعطل امریکا کی جانب سے طالبان کو اپنی کارروائیاں کم کرنے کے مطالبے پر تھا اور اب افغان طالبان امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے کی صورت میں کارروائیوں میں فوری طور پر کمی لانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔
قطر میں موجود طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن مزید تفصیلات بتانے سے انہوں نے انکار کردیا۔
خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان قطر میں امن عمل کے حوالے سے مذاکرات گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن افغانستان میں دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
افغان عہدیدار نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ امریکا نے معاہدے پر اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے لیکن دستخط اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک طالبان کارروائیوں میں کمی کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغان عہدیدار نے کہا کہ معاہدے پر دستخط رواں ماہ ہوسکتے ہیں۔
کابل میں موجود مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ امریکا کے مذاکرات کار طالبان کو کارروائیوں میں کمی لانے کے لیے تیار کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے اور گزشتہ 10 روز سے بڑی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 روز کے دوران کشیدگی میں آنے والی کمی کے بعد دونوں فریقین مذاکرات کر سکتے ہیں اور بین الافغان مذاکرات کے لیے بھی تیار ہوں گے۔