تمباکو کمپنیوں کا فرنٹ گروپس کا استعمال اور صحت عامہ پر اس کے اثرات
ہر سال لاکھوں افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر ناقابل تلافی نقصان اٹھاتے ہیں۔

نبی جان اورکزئی
تمباکو کمپنیاں ہمیشہ سے اپنی مصنوعات کو فروغ دینے، قوانین کو کمزور کرنے اور عوامی رائے کو اپنے حق میں موڑنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے مؤثر حربہ فرنٹ گروپس کا قیام ہے، یعنی ایسی تنظیمیں یا گروہ جو بظاہر آزاد اور غیر جانبدار نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت تمباکو کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فرنٹ گروپس عام طور پر صحت، معیشت، حقوقِ صارفین، یا یہاں تک کہ نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر کام کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت، ان کا بنیادی مقصد حکومتوں، پالیسی سازوں اور عوام کو گمراہ کرنا ہوتا ہے تاکہ تمباکو کی صنعت پر پابندیوں کو کمزور کیا جا سکے یا نئی پابندیوں کو روکا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت کے 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ویپ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 4 کروڑ 10 لاکھ سے زائد ہےجبکہ اب اس کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہوگا۔ پاکستان میں ویپنگ اور ای سگریٹ سے متعلق کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں جبکہ اس کے برعکس برطانیہ میں ای سگریٹس کے مواد کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔
فرنٹ گروپس کمپناں کیا ہے؟
گلوبل سنٹر فار گوڈ گورنینس ان ٹوبیکو کنٹرول کے مطابق فرنٹ گروپس یا تمباکو انڈسٹری کے اتحادیوی کا مقصد یہ ہوتا کہ تمباکو انڈسٹری کے اتحادی ایسی جماعت یا تنظیمیں ہیں جو تمباکو انڈسٹری کے کاروباری مفادات کو فروغ دیتی ہیں۔ وہ لوگ یا کمپنیاں عموماٗ تمباکو مصنوعات بناتے یا فروخت نہیں کرتے ہیں بلکہ صنعت کے ایجنڈے کو فروغ دیتے ہوئے تمباکو کی عالمی وبا کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور تعاون دیتے ہیں۔ تمباکو انڈسٹری تمباکو کے استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات میں کمی لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔ انڈسٹری کے اتحادی اس صنعت کی توسیع شدہ کڑی ہیں۔
یہی گروپس تمباکو انڈسٹری میں ایسی تنظیم کے قیام، فنڈز سازی یا رکنیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جو آزادانہ طور پر کام کرنے کا دعوی کرتی ہے، اکثر عوامی یا خصوصی مفادات کی نمائندگی کرنے کا دعوی کرتی ہے، انڈسٹری کے ساتھ مالی رابطے مبہم یا خفیہ ہو سکتے ہیں۔
محکمہ صحت خیبر خیبرپختونخوا کا موقف
محکمہ صحت خیبرپختوانخوا کے ٹوبیکو کنٹرول پروگرام کے پراجیکٹ کوارڈینٹر محمد اجمل شاہ کا کہنا ہے کہ تمباکو انڈسٹری دنیا بھر میں ایک سنگین صحت عامہ کے بحران کی ذمہ دار ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر ناقابل تلافی نقصان اٹھاتے ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ حکومتیں اور عالمی ادارے تمباکو کے مضر اثرات کو کم کرنے کیلئے قوانین اور پالیسیز مرتب کر رہے ہیں لیکن تمباکو انڈسٹری ان پالیسیوں پر عمل درآمد کو روکنے یا تاخیر کا شکار کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ یہ انڈسٹری اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے تمباکو فرنٹ گروپس کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہے اور نقصان دہ مصنوعات کو محفوظ ظاہر کرنے کیلئے ہارم ریڈکشن کے نام پر پروپیگنڈا کرتی ہے۔
گلوبل سنٹر فار گوڈ گورنینس ان ٹوبیکو کنٹرول کے مطابق فرنٹ گروپس تمباکو پر ٹیکس کے اضافے اور سگریٹ کیلئے سادہ پیکیجنگ قوانین کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ تمباکو اور نیکوٹین مصنوعات کے ہل کے ضابطوں کیلئے دباؤ بناتے ہیں۔ ای سگریٹ اور گرم تمباکو مصنوعات کے استعمال، تمباکو انڈسٹری کے نقصان میں تخفیف کی تشریح کے مطابق بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ انڈسٹری کی طرف سے نام نہاد کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے اقدامات کو انجام دینے کی بات کرتے ہیں یا ان کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسی مہم شروع کرتے ہیں جو مخصوص جماعتوں جیسے چھوٹے کاروباری مالکان یا صارفین کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ انڈسٹری کی نئی تمباکو اور نیکوٹین مصنوعات تک آسان رسائی کا مطالبہ کرنے والی عرضیاں دائر کرنے یا خط لکھنے کی مہم چلاتے ہیں یا تمباکو کنٹرول کرنے کے اقدامات جیسے تمباکو کے استعمال میں اضافہ، سادہ پیکیجنگ یا استعمال کی پابندیوں کے خلاف وکالت کرتے ہیں۔
تمباکو کمپنیاں بعض اوقات سائنسی تحقیقی ادارے یا ماہرین کی مالی معاونت کرتی ہیں تاکہ ایسی تحقیقات کی جا سکیں جو ان کے مفادات کے حق میں نتائج فراہم کریں۔ اس طرح وہ عام عوام اور پالیسی سازوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ تمباکو یا جدید نکوٹین مصنوعات اتنی نقصان دہ نہیں جتنی کہ آزاد تحقیق بتاتی ہے۔ کئی فرنٹ گروپس بظاہر غیر جانبدار نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کی فنڈنگ یا قیادت کسی نہ کسی طریقے سے تمباکو کمپنیوں سے منسلک ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی بعض تنظیمیں درحقیقت تمباکو کمپنیوں کی پشت پناہی سے کام کر رہی ہوتی ہیں تاکہ سگریٹ کے متبادل جدید نکوٹین مصنوعات کی فروخت کو فروغ دیا جا سکے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق برطانیہ میں تحفظ کی خاطر ای سگریٹ میں نکوٹین کی مقدار کی حد مقرر ہے اور اس بات کی خاص نگرانی کی جاتی ہے کہ ان کے اشتہار کیسے دیئے جا سکتے ہیں اور ان کی فروخت کہاں اور کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا میں ای سگریٹس اور ویپ پر مکمل پابندی عائد ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے قانون نہ ہونے کا مطلب ہے کہ درآمد شدہ ویپنگ مشینوں کے معیار پر کوئی چیک نہیں۔
پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کےمطابق کسی بھی قسم کی ای سگریٹ ان کی مینڈیٹری لسٹ میں شامل نہیں اور وہ اس لئےاس کے معیار کی نگرانی کرنے کے مجاز نہیں۔
فرنٹ گروپس اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نئی تمباکو کنٹرول پالیسیوں سے معیشت کو نقصان پہنچے گا اور کاروبار متاثر ہوںگے یا لوگوں کی آزادی سلب ہو جائے گی۔ اس طرح وہ پالیسی سازوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تمباکو کے خلاف سخت قوانین لاگو نہ کئے جا سکیں۔
حکومت کو چاہیئے کہ تمام پالیسی سازی میں شفافیت کو یقینی بنائے اور ایسی تنظیموں کے مالی ذرائع کا باریک بینی سے جائزہ لیں جو تمباکو یا نکوٹین مصنوعات کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ عوام اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ تحقیق کریں اور یہ سمجھیں کہ کون سی تنظیمیں واقعی عوامی مفاد میں کام کر رہی ہیں اور کون سی درحقیقت تمباکو انڈسٹری کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ سخت قوانین بنا کر فرنٹ گروپس کی مالی معاونت اور گمراہ کن مہمات پر پابندی عائد کی جائے تاکہ تمباکو انڈسٹری کی چالوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
فرنٹ گروپس کمپنیاں تمباکو انڈسٹری کیلئے ایک ڈھال کا کام کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ تمباکو کمپنیاں قوانین کو کمزور کرنے کے عوام کو دھوکہ دینے اور اپنی مصنوعات کی فروخت جاری رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ان کا پردہ فاش کرنا ان کے مالی روابط کو ظاہر کرنا اور شفاف پالیسی سازی کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ صحت عامہ کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
اجمل شاہ کہتے ہیں کہ تمباکو انڈسٹری کا مقصد ہمیشہ اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ ہے چاہے اس کیلئے عوامی صحت کو کتنی ہی قیمت ادا کرنی پڑے۔ یہ کمپنیاں دنیا بھر میں صحت عامہ کے قوانین کو کمزور کرنے کیلئے مختلف طریقے اپناتی ہیں، جن میں پالیسی سازی میں مداخلت، قانونی چالاکیاں، غلط بیانی پر مبنی تحقیق اور لابنگ شامل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان، خاص طور پر تمباکو انڈسٹری کے نشانے پر ہیں کیونکہ یہاں قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی راہ میں پہلے ہی کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔
تمباکو انڈسٹری نے پوری دنیا میں ایسے فرنٹ گروپس بنائے ہیں جو پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے کیلئے سرگرم ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی ایسے کاروباری، تجارتی اور تحقیقی ادارے ہیں جو تمباکو کے مضر اثرات کو کمزور دکھانے اور سخت قوانین کے نفاذ میں تاخیر پیدا کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ یہ گروپس حکومتوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمباکو مصنوعات پر سختی کرنے سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا اور غیر قانونی کاروبار بڑھے گا، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
تحقیق میں کیا بات ثابت ہوئی ہے؟
وائسز اگینسٹ ٹوبیکو کے عنوان سے تحقیق کرنے والی پلمونولوجسٹ ڈاکٹر صائمہ کا کہتی ہے کہ پاکستان میں ای سگریٹ کی مارکیٹنگ ایسے کی جاتی ہے جیسے اس کا کوئی نقصان نہیں یا تمباکو کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ تمباکو نوشی کی بات آتی ہے تو ای سگریٹ یا ویپ کا نام خود بہ خود آ جاتا ہے وہ کہتی ہے کہ ای سگریٹ میں جو مواد استعمال ہوتا ہے وہ نکوٹین ہے۔
ڈاکٹر صائمہ کہتی ہیں کہ سگریٹ اور ای سگریٹ میں صرف پیکیجنگ کا فرق ہے، لیکن نقصان لگ بھگ ایک جیسا ہے۔ نکوٹین تو دونوں میں ہی ہوتی ہے۔ سگریٹ میں تمباکو کو جلا کر نکوٹین ملتی ہے، جو بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ جبکہ ای سگریٹ میں مائع نکوٹین (لیکویڈ فلیور) ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول کے تحت تمباکو کنٹرول کے سخت اقدامات کئے گئے ہیں، جن میں آرٹیکل 5.3 خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کا مقصد حکومتوں کو اس بات کا پابند بنانا ہے کہ وہ تمباکو انڈسٹری کے اثر و رسوخ کو محدود کریں اور صحت عامہ کی پالیسیوں میں اس کے کسی بھی قسم کے مداخلت کو روکیں۔ آرٹیکل 5.3 حکومتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ تمباکو انڈسٹری کو پالیسی سازی کے عمل سے مکمل طور پر باہر رکھیں اور کسی بھی قسم کی شراکت داری سے گریز کریں۔
پاکستان نے بھی ایف سی ٹی سی پر دستخط کئے ہیں اور حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمباکو انڈسٹری کے حربوں سے بچتے ہوئے سخت قوانین کا نفاذ یقینی بنائے۔ تاہم، زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ تمباکو انڈسٹری اب بھی پاکستان میں مختلف پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے، اور کئی اہم اقدامات صرف ان کی لابنگ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں۔
عوام کی صحت کو بچانے کیلئے تمباکو کے استعمال پر سختی ضروری ہے۔ تمباکو کی صنعت کی طرف سے پھیلائے گئے غلط بیانیے کو روکنے کیلئے موثر پالیسیز اور قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے۔ تمباکو کے متبادل کے نام پر کی جانے والی مارکیٹنگ پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے۔ حکومت کو آرٹیکل 5.3 پر مکمل عملدرآمد کرنا ہوگا تاکہ تمباکو انڈسٹری عوامی صحت کی پالیسیز پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
خیبر پختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ بھی تمباکو کنٹرول کیلئے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے ٹوبیکو کنٹرول سیل خیبر پختونخوا کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر اجمل شاہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا محکمہ صحت عوامی صحت کے مفاد کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے اور ہم نے ایف سی ٹی سی کے تناظر میں تمباکو کنٹرول کیلئے ایک روڈ میپ اور صوبائی ایکشن پلان تیار کر لیا ہے۔ ہمارا ہدف تمباکو کے استعمال کو کم کرنا اور مستقبل کی نسلوں کو اس کے نقصان سے بچانا ہے۔
ڈاکٹر صائمہ کا کہنا ہے کہ مشاہدے سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ای سگریٹ، سگریٹ کی لت لگانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن جاتا ہے جبکہ یہی بنیادی چیز خطرناک نشوں میں مبتلا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، اسلئے دونوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ای سگریٹ صحت کے سنگین خطرات کا باعث بنتی ہے، جن میں ڈپریشن، پھیپھڑوں کی بیماری اور کینسر کا خطرہ شامل ہے۔