حمل اور زچگی کے دوران خواتین کے مسائل اور انکا حل
رخسار جاوید
خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ حمل کے دوران اپنی خوراک اور اپنی صحت کا خیال رکھے کیونکہ ہمارے ہاں زچگی کو بہت معمولی سمجھا جاتا ہے مگر حمل کے دوران اگر خیال نہ رکھا جائے تو جان کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے، یہ کہنا ہے ڈاکٹر روشان حضرت کا جو کہ پچھلی دو دہائیوں سے طب کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ (حمل کی دیکھ بھال) صحت مند حمل کے لیے پری نیٹل کیئر بہت اہم ہے اور اس میں چند کلیدی پہلو شامل ہیں، جیسے کہ باقاعدگی سے چیک اپس، ماں اور بچے کی صحت کو مانیٹر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ متوازن غذائیت، جس میں فولک ایسڈ، آئرن، اور کیلشیم شامل ہیں۔
جنین کی افزائش اور ماں کی صحت کے لیے اہم ہے کہ روٹین اسکریننگ اور ٹیسٹ، صحت مند حمل کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مزید برآں، زچگی، دودھ پلانے، اور نوزائیدہ کی دیکھ بھال کے بارے میں ماؤں کو آگاہ کرنے سے ان کے لئے آسانیاں ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر روشان حضرت سے جب پوچھا گیا کہ بچوں کی ولادت، پرورش اور صحت کے بارے میں والدین عام طور پر کیا اقدامات کر سکتے ہیں تو انکا کہنا تھا کہ، والدین عموماً حمل، زچگی، اور ابتدائی بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق مختلف تشویشات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تو ان کے حل کے لیےجینین کی افزائش کی دیکھ بھال کے لئے مختلف ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔ جس میں الٹراساؤنڈز اور دیگر تشخیصی ٹیسٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کے درمیان کم از کم دو سال کا وقفہ لازمی رکھے تاکہ خواتین صحت مند رہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ ولادت کے بعد بھی ماں کو بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہیں، جس میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن، بچے کو دودھ پلانے کے مسائل اور بچوں میں وائرل بیماریوں کی تشخیص سرفہرست ہیں۔ جس کے حل کے لئے ہمیں چاہیئے کہ حمل کے دوران حاملہ خاتون کو ہر قسم کی پریشانی اورذہنی دباؤں سے دور رکھا جائے اور جتنا ہو سکے حاملہ خاتون کو خوش رکھے۔ بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے حفاظتی ٹیکے لگانے چاہیئے۔
صدف جو کہ ایک ہاؤس وائف ہیں، بتاتی ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ ماں بنی تھی توخوشی کی بجائے مجھے خفگان اور ڈپریشن محسوس ہونا شروع ہو گیا اور مجھے ایک عجیب قسم کے خوف نے گھیر لیا۔ جب میری نارمل روٹین خراب ہونے لگی تو میرے خاوند مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ تو معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھے پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہو چکا ہیں۔ جس کے بعد میں نے ماہر نفسیات سے رجوع کیا اور مسلسل کاؤنسلنگ کے بعد میں ٹھیک ہو گئی۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین اس بات کا ذیادہ خیال نہیں رکھتی اور خود پر زور برداشت کرتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹرروشان سے جب پوچھا گیا کہ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے کوئی نئی تحقیق کی گئی ہیں تو انکا کہنا تھا کہ آگاہی کے حوالے سے مختلف طبی کانفرنسز، ورکشاپس، اور سیمینارز کروائے جاتے ہیں۔ جن میں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو تربیت دی جاتی ہیں تاکہ وہ مریضوں کی دیکھ بھال اچھے سے کر سکے۔ اور ڈسٹرکٹ و صوبائی سطح پر عوام کے لئے بھی ایسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہیں۔
اگر ہم اپنے معاشرے اور ثقافت کو دیکھے تو خواتین اپنے مسائل بتاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ ہمارے ہاں حمل، ماہواری یا خواتین کی تولیدی صحت پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہیں۔
اسی حوالے سے طیبہ نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حمل کے دوران ان کو کافی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور تین مرتبہ ان کا حمل ضائع ہوا مگر شرم اور جھجھک کی وجہ سے میں کسی کو بھی اس حوالے سے بتا نہ سکی۔ انکا کہنا ہے کہ جن مشکلات سے میں گزری ہوں، میں چاہتی ہوں کہ کوئی بھی عورت اس مشکل سے نہ گزرے۔
ڈاکٹرروشان حضرت نے کہا کہ پالیسی اور قانون سازی ماں اور بچے کی دیکھ بھال پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے کہ خدمات تک رسائی اور معاونت کے طریقے۔ مثلاً، ایسی پالیسیوں کا ہونا جو سب کے لیے قابل رسائی اور حکومت کو چاہیئے کہ صحت کی خدمات کی فراہمی یقینی بنائے۔ اور ایسی قانون سازی ہونی چاہیئے کہ سرکاری دفاتر سمیت نجی آفسز میں کام کرنے والے افراد کو بچوں کی پیدائش کے بعد تنخواہوں سمیت چھٹی کی سہولت مہیا کریں۔
صبا شاہد جو کہ سوشل ورکر ہے انکا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی کمیونٹی میں ایسے اقدامات کی ضرورت ہیں کہ ہم ماں اور بچوں کی ضروریات کی وکالت کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے۔ ضرورت مند خاندانوں کو معاونت کے بارے میں معلومات اور وسائل فراہم کریں۔ پالیسی کی وکالت میں، قانون سازوں کے ساتھ مل کرایسے قوانین اور ضوابط بنائیں جو ماں اور بچے کی صحت کو فائدہ پہنچاتے ہو۔ کمیونٹی آؤٹ ریچ، بشمول مقامی تنظیموں اور معاونت گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنا، مخصوص کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتا ہے۔
مزید برآں، صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے درمیان پیشہ ورانہ ترقی کو فروغ دینا یقینی بنایئں تاکہ وہ خاندانوں کو مؤثر طریقے سے مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔