دودھ کی ملاوٹ پر کارروائی میں رکاوٹ، میئر مینگورا نے سیل دکانیں ڈی سیل کر دی
رفیع اللہ خان
خیبر پختونخوا فوڈ اٹھارٹی نے صوبے میں 93 فیصد دودھ کو مضر صحت قرار دے کر باقاعدہ طور پر ملوث افرد کے کاروبار کو سیل کر دیا ہے تاہم ملاکنڈ ڈویژن مینگورہ سٹی کے میئر شاہد علی خان نے دودھ اور دہی فروش ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے ساتھ ملکر تمام مراکز کو دوبارہ ڈی سیل کیا جس کے بعد معاملے نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔
سوات میں خیبر پختونخوا فوڈ اتھارٹی ملاکنڈ ڈویثرن کے ڈپٹی ڈاریکٹر اسد قاسم نے ٹی این این کو بتایا کہ حلال فوڈ اتھارٹی نے یکم مارچ 2018 سے ملاکنڈ ڈویژن میں کام شروع کیا ہے جس کا بنیادی کام فوڈ کوالٹی کو بہتر بنانا اور اس بابت بیماریوں کو روکنا ان کا ڈومین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملاکنڈ ڈویثرن کے چھ اضلاع سوات، بونیر، ملاکنڈ، چترال، دیر لوئر اور دیر اپر میں حلال فوڈ اتھارٹی آپریشنل ہے اور ان کی ٹیمیں روزانہ اور ہفتہ وار پلاننگ کے تحت عوام الناس کو بہتر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے فیلڈ میں جنرل فوڈ کی کوالٹی کنٹرول اور مانیٹرنگ کرتے ہیں۔
ڈپٹی ڈاریکٹر اسد قاسم نے بتایا کہ صوبائی سطح پر دودھ میں ملاوٹ کرنے والے مافیا کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا اس حوالے سے ملاکنڈ ڈویثرن میں بھی بڑے اور درمیانی درجے کے کاروباری مراکز سے دودھ کے نمونے لئے گئے جس کو سٹیٹ آف دی آرٹ لیبارٹری میں ملکوں سکین ( Milko Scan ) سے نمونوں کا معائینہ کیا گیا۔
معائنے کے بعد دودھ میں مختلف کیمیکلز جس میں کھاد، فرملین، سوڈا، گلوکوز، خشک پاوڈر اور نمک اور پانی کی ملاوٹ پائی گئی جبکہ اس میں فیٹس اور پروٹین اور دیگر نمکیات کی کمی پائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ملاکنڈ ڈویثرن کے 97 فیصد دودھ کو مضر صحت قرار دیا۔
اسد قاسم نے بتایا کہ حلال فوڈاتھارٹی کے اپنے لیگل پیرامیٹرز ہے، فوڈ سیفٹی ایکٹ 2014 میں قانون کے مطابق وہ دکان کو سیل اور لائسنس کو منسوخ کر سکتا ہے یا پھر 25 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے اسی پیرامیٹر کی بنیاد پر ہم نے ملاکنڈ ڈویثرن کے 18 دکانوں کو سیل کیا جو دودھ کے نام پر زہر بیچتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ملاوٹ کرنے والوں کو ہم نے مختلف کیٹیگریز میں ڈالا ہے دودھ میں کھاد اور فرملین کی ملاوٹ کرنے والے 12 افراد کو بلیک کیٹیگری، دودھ میں 30 سے40 فیصد پانی کی ملاوٹ کرنے والے 30 افراد کو ریڈ کیٹیگری جبکہ 28 افراد کو 15 سے 25 فیصد پانی کے استعمال پر یلو کیٹیگری جبکہ گرین کیٹیگری کلئیر کیٹیگری قرار دی گئی ہے۔
ڈپٹی ڈاریکٹر حلال فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ ضلع سوات میں روزانہ دو لاکھ لیٹر سے زیادہ دودھ استعمال ہوتا ہے جس میں 50 فیصد مقامی پیداوار ہے جبکہ 50 فیصد دودھ پنجاب سے آتا ہے، انہوں نے بتایا کہ پنجاب سے روزانہ آٹھ ٹینکرز دودھ سوات آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حلال فوڈ اتھارٹی کے سٹاف کو فیلڈ میں کافی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے کبھی ٹریڈ فیڈریشن کی جانب سے تو کھبی سیاسی اثر ورسوخ ان کے کام کو متاثر کرتیں ہیں۔
مینگورہ سٹی سوات کے میئر شاہد علی خان نے مینگورہ شہر میں دودھ فروشوں کے سیل کی گئی دکانوں کو اگلے روز خود جا کر سیل کے چسپاں پیپرز پھاڑ کر دکانوں کو ڈی سیل کیا۔
ایک روز قبل حلال فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے متعدد دودھ فروشوں کے دکانوں کو سیل کیا تھا جس کے بعد ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے سٹی میئر شاہد علی خان سے ملاقات کی اور انہیں پوری صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد سٹی میئر شاہد علی خان نے خود جا کر دکانوں کو کھول کر پر جوش انداز میں حلال فوڈ اتھارٹی کو للکارتے ہوئے کہا کہ کوئی مجھے اعتماد میں لئے بغیر ایسا کام نہیں کر سکتے۔انہوں نے بتایا کہ جو دودھ ٹینکرز کے ذریعے لایا جاتا یے اسے راستوں میں ہی چیک کیا جائے اور ملاوٹ شدہ دودھ کو تلف کیا جائے۔
سوشل میڈیا صارف شیراز خان نے اپنے وال پر لکھا کہ "میئر صاحب ہم آپکے ہر اچھے کام کو سپورٹ کر رہے ہے مگر یہاں تو آپ بلکل غلط ٹریک پر جارہے ہے، یہ تو انسانی زندگیوں کا سوال ھے۔ ایک کام آپ نہیں کررہے کہ اس ایکشن سے واضح ہوا کہ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے۔ آپ دودھ فروشوں کو مکمل چھوٹ دے رہے ہیں کہ انسانی زندگیوں سے کھیلوں اور ملاوٹ شدہ کیمیکل زدہ دودھ کا فروخت جاری رکھوں خدارا سوچ سمجھ کر کام کرلیا کرو”
اسی طرح ایک اور سوشل میڈیا صارف عابد علی جان نے اپنے وال پر لکھا ہے "کہ او میئر صاحب ابھی تک لوگوں پر ملاوٹی اور زہریلا دودھ بیچا، کیا لوکل گورنمنٹ نے اس سے پہلے پوچھا ہے؟ اگر ہمارے لوکل گورنمنٹ اور ضلعی انتظامیہ کام کرتے تو کیوں سوات کے لوگ زہر اور ملاوٹی دودھ پینے پر مجبور ہوتے؟”
اس حوالے سے پشاور کے معروف قانون دان عباس خان سنگین نے ٹی این این کو بتایا کہ حلال فوڈ اتھارٹی کو ایک ایکٹ اور قانون نے ایکشن کی اجازت دی ہے، میئر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ دکانوں کو ڈی سیل کر دیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ محکمے کا کام ہے جو اپنا رٹ خود قائم کریں اگر ان کے کام میں کسی نے مداخلت کی ہے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنی چاہئیں کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔
اس حوالے سے میٹابولک اور جی آئی سرجن ڈاکٹر شاہ عباس نے بتایا کہ دودھ پروٹین سے بھر پور ہے اس میں فیٹس بھی پائے جاتے ہیں۔ اب یہ دونوں انرجی کے بنیادی زرائع ہے۔ دودھ ہم بچوں، خواتین اور بڑوں کو طاقت کے لئے دیتے ہیں لیکن جب اس میں ملاوٹ کی جاتی ہے تو ملاوٹ کی دو اقسام ہے ایک وہ جس میں صرف پانی ملایا جاتا ہے، وہ دودھ کی طاقت کو تو کم کر سکتا ہے لیکن صحت کے لئے خطرناک نہیں ہوتا، دوسری قسم کی ملاوٹ وہ ہے جس میں مختلف اقسام کے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں وہ انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شاہ عباس نے بتایا کہ کیمیکلز کی بھی مختلف اقسام ہے کوئی فارملین ملاتا ہے تو کوئی ڈرائی پاوڈر اور کپڑے دھونے کا صرف ملاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں کینسر کے کیسیز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ان سب کا تعلق ان کیمیکلز سے ہیں جو جسم میں کینسر کا سبب بنتے ہیں۔
عباس نے بتایا کہ گلیکوز کی ملاوٹ شوگر کے مریضوں کے لئے خطرناک ہے، انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اکثر ایسے مریض آتے ہیں جن کا شوگر لیول بہت زیادہ ہوجاتا ہے جب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کھایا ہے جو شوگر لیول اتنا بڑھا ہے تو وہ دودھ کے استعمال کا بتاتے ہیں اب جب شوگر کا مریض گلیکوز ملا دودھ پئے گا تو ظاہر سی بات ہے ان کا شوگر لیول بڑھے گا اس لئے دودھ میں کیمیکلز ملانے والی مافیا ایک ایسے جرم کے مرتکب ہے جس سے ہماری سوسائٹی تباہ ہو رہی ہے انہوں نے بتایا کہ حکومت کو قانون سازی کرنی چاہئیے اور ایسے ملوث افراد کو دس سال قید کی سزا دینی چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی انسانی جانوں سے نہ کھیلے۔