"اگر اس رات ایمرجنسی میں کوئی فیمیل ڈاکٹرز ہوتی تو میرے بچے کی جان بچ سکتی تھی”
سدرہ حسن
"آپ بالکل ٹھیک ہے صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی آپ کی نارمل ڈیلیوری ہو جائیگی لیکن صبح اٹھ بجے سے پہلے ہی میرا بچہ فوت ہو چکا تھا ” یہ کہنا تھا خیبرپختونخوا کے ضلع اپرکرم پاڑاچنار سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ خاتون سعدیہ کا۔ انہوں نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اب بھی جب وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے لیبر روم جا کر دیکھتی ہیں تو انکو اپنا واقعہ یاد آجاتا ہے۔
سعدیہ نے بتایا کہ "آج سے ٹھیک دو سال قبل رات کے وقت جب ایمرجنسی کی صورت میں مجھے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں وہاں پر موجود نرسزز نے میرا چیک اپ کیا۔ اور چیک اپ کے بعد انہوں نے بتایا کہ اپ بالکل ٹھیک ہیں صبح اٹھ بجے سے پہلے ہی اپ کی نارمل ڈیلیوری ہو جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔”
متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ اگر اس رات ایمرجنسی میں کوئی فیمیل ڈاکٹرز وہاں پر موجود ہوتی تو وقت پر ان کا اپریشن ہوجاتا اور یوں انکے بچے کی جان بچ سکتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اج بھی ہسپتال میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نظر نہیں اتی۔ اج بھی دیکھتی ہیں تو پورے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں صرف ایک لیبر روم ہے جو کہ تقریبا اٹھ بیڈ پر مشتمل ہے جس کی حالت انتہائی خستہ حال ہے، اج بھی رات کے وقت لیبر روم میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی میں ایمرجنسی کی صورت میں لائی جانے والی خواتین کا چیک اپ وہاں پر موجود نرسز کرتی ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ایک سعدیہ کا نہیں ہے بلکہ ضلع کرم کی کئی خواتین ہسپتال میں سہولیات کی عدم دستیابی گلہ کرتی ہے۔ ان میں سے ایک خاتون اسیہ بھی ہے وہ کہتی ہے کہ دو ہفتے پہلے ڈیلیوری کی غرض سے ہسپتال گئی تھی۔ لیبر روم میں فیمیل ڈاکٹرز کی عدم موجودگی اور بیڈز کی عدم دستیابی کی وجہ زچگی والی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ ایک ڈیلیوری بیڈ کے لیے گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت ضلع کرم کی کل ابادی 7 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں دو لاکھ کے قریب خواتین شامل ہیں۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر طاہرہ نے ٹی این این کو بتایا کہ انکے پاس روزانہ کی بنیاد پر 100 کے قریب خواتین علاج کے لیے اتی ہے جس میں نہ صرف سنٹرل کرم اور لوئر کرم کی خواتین شامل ہوتی ہے بلکہ دور دراز علاقوں جیسا کہ افغانستان بگن ہنگو وغیرہ سے بھی خواتین بڑی تعداد میں ہسپتال علاج کے لیے اتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کی چیک اپ کے لیے اس وقت انکے پاس صرف چار گائناکالوجسٹ ہے۔ ہسپتال میں فیمیل سٹاف کی کمی کی وجہ سے ان خواتین کا وقت پہ علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہسپتال میں نہ صرف فیمیل سٹاف کی کمی ہے بلکہ ہسپتال بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے جیسا کہ سی سی یو اور ائی سی یو کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین کو ایمرجنسی کی صورت میں پشاور ریفر کیا جاتا ہے لیکن راستوں کی خراب صورتحال کی وجہ سے زیادہ تر خواتین پشاور پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑ دیتی ہے۔ ایک اور اہم مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے ڈاکٹر طاہرہ نے بتایا کہ ہسپتال میں نہ صرف فیمیل ڈاکٹرز اور مشینری کی کمی ہے بلکہ لائٹ کی عدم موجودگی بھی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پوری ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 24 گھنٹوں میں سے صرف تین گھنٹے بجلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اپریشن اور نارمل ڈیلیوری میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر میر حسن جان نے بتایا کے یہ مسئلے صرف خواتین کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس وقت پورا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال محتلف قسم کے مسائل سے دو چار ہے۔ جس میں سب سے بڑا مسئلہ فیمیل سٹاف کی کمی ہے جس کی وجہ سے رات کے وقت لیبر روم میں نرسزز ڈیوٹی پر تعینات ہوتی ہیں۔
ہمارے پاس اس وقت نہ صرف فیمیل سٹاف کی کمی بلکہ اس کے علاوہ، سیٹی سکین ایم ار ائی سکین کی کمی سی سی یو، آئی سی یو کی کمی ،اکسیجن پلانٹ کی کمی ڈوبلر الٹراساؤنڈ کی کمی ، سولرائزیشن اور بجٹ کی کمی بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کے اس حوالے سے ہم نے ڈی جی ہیلتھ سے کئی میٹنگز کیے اور ان کو ہسپتال کو در پیش مسائل سے اگاہ کیا لیکن اس حوالے سے ان کا ابھی تک کوئی مثبت جواب سامنے نہیں ایا۔
ڈاکٹر میر حسن جان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں جب سے ایم ایس انچارج سنبھالا ہے تب سے ہسپتال میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے میں انہوں نے دو گائناکالوجسٹ کی پوسٹنگ کی پہلے پورے ہسپتال میں صرف دو گائناکالوجسٹ تھی اب چار ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ پری میچور بچوں کے لیے نرسری وارڈ بنا جو تقریباً 5 ان کیوبیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹراما سینٹر بھی تعمیر کیا گیا تاہم بجٹ کی کمی کی وجہ سے ہسپتال کی سٹرکچر رینویشن نہ ہو سکی۔