باجوڑ میں جذام کے تمام مریض صحت یاب: 2023 سے اب تک کوئی نیا کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا
شاہ خالد شاہ جی
57 سالہ فضل اکبر ضلع باجوڑ کے ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جو ایک سال پہلے جذام جیسے قدیمی اور متعدی بیماری سے مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو اس وقت جذام کے مرض میں مبتلا ہونے کا پتہ چلا جب انہوں نے سات سال پہلے پشاور میں ڈاکٹر کے مشورے پر چمڑے کی بیماری کے مختلف ٹیسٹ کرائے۔ ان کے مطابق وہ ایک مزدور ہے اور جب بھی وہ کام کرتا تھا تو ان کو جسم میں سستی اور ہڈیوں میں درد محسوس ہوتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ جب ایک دن انہوں نے باجوڑ کے ہیڈکوارٹر ہسپتال خار میں ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرایا تو انہوں نے ان کو مزید میڈیکل چیک اپ کے لئے پشاور بھیج دیا جہاں پر ان میں جذام کی تشخیص ہوئی۔
فضل اکبر نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ سے ان کو بھوک نہیں لگتی تھی۔ ہڈیوں میں درد، جسم میں سستی اور معدے میں تکلیف کی شکایت ہوتی تھی۔ تاہم پانچ سال اپنا علاج جاری رکھا اور ہر سال باقاعدگی سے اپنا ٹیسٹ کراتا تھا۔ اللہ کی مہربانی سے اب مکمل صحت یاب ہو چکا ہے۔
فضل اکبر نے بتایا کہ ان کا تعلق باجوڑ کے تحصیل سلارزئی کے دوردراز پہاڑی علاقے بٹمالئی سے ہے۔ ان کے گاؤں اور گردو نواح میں پہلے سے جذام کے کئی مریض موجود تھے لیکن آگاہی نہ ہونے کے وجہ سے بر وقت تشخیص اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے یہ بیماری کئی لوگوں میں پھیل گئی تھی۔ لیکن علاج مکمل کرنے کے بعد وہ سب صحت یاب ہوچکے ہیں۔
باجوڑ میں پہلے جذام مرکز کا قیام :
معلومات کے مطابق باجو ڑمیں جذام کے علاج کا پہلا مرکز جرمنی کی ممتاز ماہر جذام ڈاکٹر روت فاؤ نے 1977ء میں اس وقت قائم کیا جب اس نے خود باجوڑ آکر جذام کے مریضوں کی تلاش شروع کردی تھی۔ اس کے بعد باجوڑ میں جذام کے مریضوں کا باقاعدہ علاج شروع ہوا۔ بعد میں باجوڑ کے دوردراز تحصیل سلارزئی میں پشت کے مقام پر مریضوں کی آسانی کے لئے دوسرا مرکز قائم کیا گیا۔
باجوڑ میں اب تک رجسٹرڈ شدہ مریضوں کی تعداد:
معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ میں دو مراکز قائم ہیں جس میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار اور دوسرا پشت میں کام کررہا ہے۔ ان دونوں مراکز میں ان کے ساتھ 2022 تک جذام کے ٹوٹل 661 مریض رجسٹرڈ ہو چکے تھے۔ جن میں 135پشت اور باقی خار سنٹر میں تھے۔ ان مریضوں کا تعلق باجوڑ کے مختلف تحصیلوں سے تھا اور اس میں اکثر مریض زیادہ عمر کے تھے۔
پشت کے ٹائپ ڈی ہسپتال جذام کنٹرول مرکز کے سربراہ اور سینئیر ہیلتھ ٹیکنیشن برکت شاہ کا کہنا تھا کہ ان 661 مریضوں میں 656 پہلے صحت یاب ہو چکے تھے جبکہ پانچ مریض 2022 میں علاج مکمل کر کے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ جس میں تین مرد اور دو خواتین شامل تھی جن کے عمریں 18 سال سے اوپر تھی۔ "اب ان کے ساتھ جذام کا کوئی ایکٹیو مریض رجسٹرڈ نہیں” ۔
پاکستان میں جذام کی مریضوں کے اعدادوشمار :
پاکستان میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لئے قائم میری ایڈیلیڈ لپراسی مرکز((Marie Adelaide Leprosy Centre کراچی کے میڈیا انچارج نثار ملک کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ٹوٹل 59290 جذام کے مریض رجسٹرڈ ہوئے تھے جس میں 9664 خیبر پختونخوا سے تھے ۔ ان میں 58963 صحت یاب ہوچکے ہیں تاہم 327 زیر علاج ہیں جبکہ 2022 میں 259 نئے مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں 50 مریض زیر علاج ہیں جبکہ 2022 میں 49 نئے مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
نثار ملک کے مطابق جذام کے سب سے زیادہ 60 فیصد کیسسز صوبہ سندھ سے رجسٹرڈ ہورہے ہیں جس کی بنیادی وجہ لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے کیونکہ وہ بروقت علاج کے لئے جذام علاج مرکز نہیں آتے۔
فضل اکبر نے جذام میں مبتلا ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں یہ بیماری کئی لوگوں میں موجود تھی اس لئے ان کو ہر وقت یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں ان کو یہ بیماری نہ لگ جائے۔ اور آخر کار وہی ہوا جس کا ان کو ڈر تھا۔ اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے خود کو اپنے گھر والوں سے بھی تین سال الگ رکھا تاکہ کہیں ان کو یہ بیماری نہ لگ جائے۔ اگر چہ ڈاکٹروں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں بتائی تھی ان کو صرف ڈاکٹروں نے یہ کہا تھا کہ اپنی دوائی وقت پر استعمال کریں اور باقی نارمل لوگوں کی طرح زندگی گزاریں۔ فضل اکبر کے مطابق ان کی رجسٹریشن خار ہسپتال میں قائم جذام کے مرکز میں ہوئی تھی اور وہاں سے ہر ماہ مفت دوائی دی جاتی تھی۔
جذام کس طرح پھیلتا ہے
جذام کے پھیلنے کے حوالے سے برکت نے بتایا کہ جذام ایک متعدی بیماری ہے۔ جو خوردبینی جراثیم یعنی بیکٹیریاکے وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ مرض عام طور پر جلد اور نسوں یعنی اعصاب کو متاثر کرتا ہے۔ اوسطا تین برس کے نشونمائی وقت Incubation Period میں یہ مرض آہستہ آہستہ پھیلتا ہے۔ یہ بیماری مرد یا خواتین کسی کو بھی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔
جذام کی بیکٹیریا ٹی بی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اسی طرح ایک مریض سے دوسرے انسان کو لگتی ہے اس لئے اس کے مریض کو منہ پر کھانسی کے دوران رومال رکھنا چاہیے اور اس کے مریض کو بھی ماسک پہننا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کے جسم پر کوئی دھبے یا داغ ہو جس کو چھونے سے اس کو کوئی احساس نہ ہو تو وہ فوری جذام کے مرکز سے رجوع کریں تاکہ اس کا مکمل تشخیص ہو سکیں۔
کیا باجوڑ جذام سے مکمل طور پر پاک ہوا:
برکت نے کہا کہ جذام ایک قدیمی بیماری ہے اور یہ پرانے زمانے میں جب کسی کو لگتی تھی تو لوگ اس مریض سے میل ملاپ چھوڑتے تھے جس کی وجہ سے یہ بیماری لوگ چھپانے لگے وہی سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اگر چہ ہمارے ساتھ 2023 سے لیکر ابھی تک ایک بھی جذام کا مریض رجسٹرڈ نہیں ہوا لیکن ہم یہ دعوی سے نہیں کہہ سکتے کہ باجوڑ مکمل طور پر جذام سے پاک ہوا ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ باجوڑ میں مزید جذام کے مریض نہیں ہونگے۔
جذام کے علاج کا طریقہ کار:
جذام کے علاج کے بارے میں برکت نے کہا کہ کثیر ادویاتی علاج یعنی MDT ) Multi Drug Therapy ( سے جذام کے مریض 6 مہینے سے 12 مہینوں کے اندر اندر پوری طرح ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جذام کے مریض بالکل عام لوگوں کی طرح جی سکتے ہیں۔ اگر یہ مرض آعاز میں ہی پہچان لیا جائے اور مریض کا علاج MDTسے کیا جائے تو وہ اس مرض سے پیدا ہونے والی معذوریوں سے بچ جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جذام کی مکمل دوائی فری ہے جو ان کو عالمی ادارہ صحت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے اور وہ مریضوں کو مفت فراہم کرتے ہیں۔ یہ دوائی بہت مہنگی ہیں اور مارکیٹ میں دستیاب بھی نہیں ہے اس لئے جذام کے مریضوں کو ہر صورت میں جذام علاج مرکز آنا چاہئے تاکہ ہم ان کو اپنے ساتھ رجسٹر کریں اور ان کا علاج بروقت ہو سکیں۔