کیٹو ڈائٹ کیا ہے، کیا یہ واقعی جان لیوا ہوسکتا ہے؟
ناہید جہانگیر
کچھ دن پہلے ایک تقریب میں کسی سے سنا کہ وہ کیٹو ڈائٹ پر ہے اور ہر چیز وہ نہیں کھا سکتی۔ ڈائیٹ کا سنا تھا لیکن یہ کیٹو ڈائٹ کیا ہوتا ہے اسکی سمجھ نہیں آئی۔
کیٹو ڈائیٹ کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق کیٹو ڈائیٹ میں پروٹین، چکنائی اور کاربوہائیڈریٹ استعمال کیا جاتا ہے یعنی فیٹ اور پروٹین کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور جو بھی یہ ڈائیٹ کرتا ہے تو چاول اور روٹی سے مکمل پرہیز کرتا ہے کیونکہ اس مں موجود کاربوہائیڈریٹ شوگر اور موٹاپے کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس قسم کی ڈائیٹ میں کاربوہائیڈریٹ نہیں کھایا جاتا جبکہ چکنائی کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ سبزیاں بھی منتخب مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔ پنیر زیادہ کھایا جاتا ہے۔
ثمینہ جو پیشے کے اعتبارسے سرکاری سکول کی استانی ہیں۔ 107 کے جی اسکا وزن ہے اس لئے وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے ایک مہینے سے کیٹو ڈائٹ پر ہے وزن پر کافی حد تک فرق پڑا ہے۔
اس سوال کے جواب پر کہ کیا وہ ایسا کسی ڈاکٹر یا نیوٹریشنسٹ کے کہنے پر کر رہی ہیں تو اسکا جواب یہ تھا کی نہیں اس نے کیٹو ڈائٹ کے بارے میں نیٹ پر کافی ریسرچ کی ہے اور جتنی بھی فلم سٹارز ہیں ان میں زیادہ تر کیٹو ڈائٹ ہی کرتی ہیں اور اسکا اثر بہت جلد شروع ہوجاتا ہے۔
کیٹوڈائٹ کے لئے نیوٹریشنسٹ سے مشورہ کرنا کتنا ضروری ہے؟
دنیا بھر کے غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا نیوٹرشنسٹ نہیں ہوگا جو کسی کو بھی زیادہ عرصہ کے لئے کیٹوڈائٹ کا مشورہ دیں۔ مسلسل یہ ڈائیٹ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
پروفیسر بشریٰ خلیل جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورمیں بطور غذائی ماہر کام کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ کسی بھی ڈائیٹ سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ پوری سکریننگ اور جسم کے مطابق صحت مندانہ ڈائیٹ تجویز کریں اگر ضروری ہے۔ ورنہ آج کل اپنی مرضی سے یا کسی بھی غیر مستند لوگوں کے مشورے پر ڈائیٹ کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ لوگ ظاہری طور پر سمارٹ نظر آنے کے لئے اندرونی طور پر اپنا بڑا نقصان کر لیتے ہیں۔
موٹاپے کی وجوہات اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریاں
اس حوالے سے غذائی ماہر پروفیسر بشریٰ خلیل کہتی ہیں کہ موٹاپا بے شمار بیماریوں کی جڑ ہے جیسے کہ شوگر، بلڈ پریشر دل کی بیماریاں اور اسی طرح کی بہت ساری بیماریاں ہیں جو کہ موٹاپے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہو سکتی ہیں۔ اج کل کے نوجوانوں میں اب بڑھتی ہوئی عمر کے لوگوں میں بڑھتا ہوا وزن جو ہے ایک خطرے کی نشان ہے۔ موٹاپے کی وجوہات میں دو چیزوں کا بے حد عمل دخل ہے۔ ایک خوراک اور دوسرا لائف سٹائل یعنی ہمارے رہنے کا طریقہ شامل ہیں۔ تو پہلے اگر خوراک پہ بات کریں تو خوراک جو ہے وہ سادہ خوراک جیسے پہلے کھایا جاتا تھا گھر کی بنی ہوئی سبزیاں ،گوشت دالیں وغیرہ۔ اسی طریقے سے دودھ، دہی لسی ،انڈے ،دیسی گھی کا استعمال کیا جاتا تھا وہ سب چیزیں جو تھیں وہ انسان کی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند چیزیں تھیں۔ اب ان کو ریپلیس کر دیا گیا اس کی جگہ اب جو زیادہ خوراک استعمال کی جاتی ہے وہ برگرز ہیں۔ پیزہ ہیں یا جنگ فوڈ ہے جس میں مختلف قسم کے چپس بھی شامل ہیں۔ یہ ساری چیزیں بازار میں ملتی ہیں جن کو گھر جا کہ اپ جلدی اسانی سے بنا کر کھا سکتے ہیں لیکن ان تمام اشیا میں آرٹیفیشل فلیورز ہوتے ہیں پریزرویٹوز ہوتے ہیں جو کہ انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
نیوٹریشنسٹ بشریٰ خلیل نے مزید کہا کہ اسکے ساتھ ساتھ کھانے پکانے کا جو طریقہ وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کھانے کو پکا پکا کے اس کو خراب کردیا جاتا ہے جو صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح یہ سب چیزیں ملا کرا موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔
ڈاکٹر بشریٰ خلیل غلط لائف سٹائل کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ لوگ آرام پسند ہو چکے ہیں کھیلنے کودنے کی بجائے کمپیوٹر وغیرہ کو زیادہ ٹائم دیتے ہیں۔ ساتھ میں موبائل کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے خاص کر چھوٹے بچے موبائل کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں تو جب روزمرہ کی زندگی میں حرکت کم ہے اور ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ بھی موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔
لوگ سیڑھیوں کی بجائے لفٹ کا استعمال کرتے ہیں پیدل چلنے کی عادت تقریبا ختم ہی ہو چکی ہے۔ گاڑی رکشہ ٹیکسی وغیرہ کے لیے انتظار میں رہتے ہیں۔ ٹی وی کے سامنے گھنٹوں گزر گزار دیتے ہیں تو یہ سب چیزیں موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔
کیٹو ڈائٹ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے ؟
کیٹو ڈائٹ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس حوالے سے پروفیسر بشریٰ خلیل نے بتاتا کہ اس ڈائیٹ کو فیٹ ڈائٹ بھی کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ گھریلو علاج کے طور پر اس میں شامل غذا اپنا سکتے ہیں لیکن کسی بھی ڈائٹ پلان سے پہلے نیوٹرشنسٹ سے پوچھنا چاہئے تاکہ جو بھی طریقہ کار غذائی ماہر تجویز کریں وہ اپنائیں اگر نہیں تومضر اثرات کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
پھر جب وزن کم کرنے کی بات ہوتی ہے تو ایسے ایسے طریقے استعمال ہوں گے جو بدن کو فائدہ دینے کی بجائے نقصان کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ کیٹو ڈائٹ۔ اگر اپ بغیر کسی نیوٹریشنسٹ سے یا ڈائٹیشنسٹ کے مشورے کے بغیر شروع کرتے ہیں تو اپ یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ کسی بھی ڈائیٹ سے پہلے کچھ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جس میں پتہ چلتا ہے کہ ڈائیٹ لے سکتے ہیں کہ نہیں۔
ڈاکٹر بشریٰ نے بتایا کہ دوسری بات جو کیٹو ڈائٹ کی ہے اگر صحیح طریقے سے نہ لی جائے تو وہ گردوں کے لیے بہت نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ وہ غذا لی جائے جو کی انسان کے صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے جیسے پھل اور سبزیوں کا استعمال کیا جائے اور گوشت بھی استعمال کیا جائے لیکن ایک مناسب مقدار میں استعمال کیا جائے۔
اسی طرح سفید آٹے کی بجائے سرخ ،براون آٹا یا چکی کا آٹا استعمال کیا جائے۔ ساتھ میں بہت زیادہ تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت ضروری چیز ہے واک کرنا یا پیدل چلنے کو عادت بنایا جائے اورساتھ میں ورزش کرنا بہت ضروری ہے اسکو اپنی ایک عادت بنالیں۔