فیکٹ چیک: کیا واقعی لمپی سکن بیماری انسانی جلد کو متاثر کر سکتی ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے ایک نجی الرجی سنٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ جانوروں کی بیماری لمپی سکن انسانوں کو بھی منتقل ہو رہی ہے اور ان کے سنٹر میں علاج کے لئے ایسے درجنوں افراد آئے ہیں جن کی جلد (لمپی سکن) پر یہ دانے نکلے ہیں۔ ماہرین صحت ان دعوؤں کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 1928 سے آج تک لمپی سکن کا انسانوں کو منتقل ہونے کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا اور مذکورہ سنٹر والے ان افواہوں اور جھوٹے دعوؤں سے لوگوں کی اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نجی الرجی سنٹر نے گزشتہ روز بتاریخ 18 اگست کو اپنے فیس بک پیج سے ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں دانے دار جلد کی تصاویر کے ساتھ کیپشن دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے جسم پر ایسے نشانات محسوس کریں تو جلد از جلد ان کے سنٹر کے ساتھ رابطہ کریں کیونکہ یہ ایک خطرناک بیماری لمپی سکن ہے جو کہ جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہو چکی ہے اور ان کے مرکز ایسے بہت سے مریض اب تک آ چکے ہیں۔
پوسٹ میں لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اس کو پھیلائیں اور خود احتیاط کے ساتھ دوسروں کو آگاہ کریں۔
ان افواہوں کو عام لوگ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز فیس بُک اور واٹس ایپ گروپس میں آگ کی طرح پھیلا رہے ہیں۔ مذکورہ سنٹر کے ایک شخص نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کا نام ڈاکٹر سجاد ہے اور وہ اس سنٹر میں جلد اور الرجی سے جُرے امراض کے علاج کیلئے بطور ڈاکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی پوسٹ ان کے ادارے کی ہے "میں آپ کو دکھا سکتا ہوں اب بھی، میرے سنٹر میں روزانہ سینکڑوں مریض لمپی سکن سے متاثر ہو کر آتے ہیں، انہیں جلد کی بیماریاں لاحق ہوئی ہیں۔”
مگر ماہرین صحت ان دعوؤں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تک کوئی بھی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جس میں لمپی سکن انسانوں کو لگنے والی بیماری قرار دی گئی ہو۔
ضلع چارسدہ میں واقع ہری چند لائیوسٹاک فارم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر برہان نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے بھی واٹس ایپ گروپس میں کئی ایسی پوسٹیں دیکھی ہیں مگر یہ سب حقائق کے برعکس اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔
ڈاکٹر برہان کا کہنا تھا "یہ خبریں مکمل طور پر غلط اور افواہیں ہیں، یہ وائرس بالخصوص گائے کو متاثر کرتا ہے اور انسانوں کو منتقل ہونے کی کوئی تحقیق، ریکارڈ اور نہ کوئی ہسٹری سامنے آئی ہے، یہ سب جھوٹی خبریں ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ دراصل یہ بیماری جانوروں اور بالخصوص گائے میں پائی جاتی ہے جس کے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں جو مچھروں اور مکھیوں کے ذریعے دیگر گائے اور بہت کم تعداد میں بھینس کو منتقل ہوتی ہے جس کا علاج ویکسین ہی سے ممکن ہے جبکہ یہی مچھر انسان کو کاٹے بھی تو انہیں نقصان نہیں پہنچاتا۔
حالیہ افواہوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز؛ فیس بُک اور واٹس ایپ گروپس میں عام لوگوں میں بحث شروع ہوئی ہے جس کی وجہ سے صوبہ بھر میں لوگوں نے گائے، بھینس اور بچھڑے کے گوشت، دودھ خریدنے اور کھانے سے پرہیز شروع کیا ہوا ہے جس سے گوشت کے کاروبار کرنے والے افراد کا کاروبار شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔
ہری چند فارم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر برہان کا کہنا تھا کہ لمپی سکن سے مرنے والے جانوروں کو اکثر دریاؤں یا نہروں میں پھینک دیا جاتا ہے جن کا گوشت آبی حیات غذا کے طور پر استعمال کرتی ہے، اگر آبی حیات انسان کھائے تو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔
زیرگردش سوشل میڈیا افواہوں میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ متاثرہ جانوروں کا گوشت کھانے سے جلد کے امراض لاحق ہوتے ہیں مگر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چارسدہ میں کام کرنے والے ماہر امراض جلد ڈاکٹر ناصر نے لمپی سکن کو الرجی کے ساتھ جوڑنے کو مضحکہ خیز قرار دے کر کہا کہ اس وائرس کا الرجی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ڈاکٹر ناصر نے ٹی این این کو بتایا کہ اس وائرس کے نمودار ہونے کے تقریباً تین سال مکمل ہو چکے ہیں مگر اب تک ان کے پاس کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا جس کی وجہ سے انسان کی جلد متاثر ہوئی ہو، "میری نظر میں یہ سب افواہیں اور جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔”
پاکستان میں خوراک کے تحفظ و تحقیق کے محکمہ نیشنل فوڈ سیکورٹی ایند ریسرچ نے لمپی سکن بیماری کے انسانوں میں منتقل ہونے کی خبروں کی تردید کی ہے۔
رواں سال مارچ میں وزارت کی جانب سے جاری شُدہ اعلامیے میں جانوروں کی صحت کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ورلڈ آرگنائزیشن آف اینیمل ہیلتھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سائنسی تحقیق کے تحت لمپی سکن بیماری لوگوں کو منتقل نہیں ہو سکتی تو اس بنیاد پر متاثرہ جانوروں کا دودھ اور گوشت استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ٹی این این کی تحقیق کے مطابق نجی الرجی سنٹر کی جانب سے فیس بُک پر جاری کردہ تصاویر میں ایک شخص کے پیٹھ پر پھوڑے پھنسی اور دانے نظر آ رہے ہیں جبکہ یہ تصویر زمینوں کی خریدوفروخت کیلئے بنائے گئے سوشل میڈیا پیج سے لی گئی ہے۔