لائف سٹائلکالم

شیخ سعدی، ان کے شیخ کی دو نصیحتیں اور ہم

عبد المعید زبیر

بڑوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اگر وقت پر سمجھ لی جائیں تو بڑا ہی نفع دیتی ہیں ورنہ حالات تو بخوبی سمجھا ہی دیتے ہیں۔ دارالعلوم کراچی سے فراغت کا سال تھا۔ آخری ایام چل رہے تھے جس کے بعد ہر کسی نے اپنی اپنی منزل کی طرف لوٹ جانا تھا۔ ایسے میں استاد محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے طلبہ سے آخری خطاب فرمایا جو دراصل طلبہ کے لیے نصیحتیں ہی تھیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اب جب آپ باہر نکلیں گے تو بہت چیزوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشکلات، پریشانیاں اور طرح طرح کے فتنے آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوں گے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ آپ اپنا ہاتھ کسی اللہ والے کے ہاتھ میں دے دیں۔ جس کی نصیحتیں اور دعائیں آپ کی اور آپ کے علم کی قدم قدم پر نصرت فرمائیں گی۔ پھر اپنی مثال پیش کرنے لگے کہ والد صاحب نے مجھے ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمہ اللہ کے حوالے کیا تھا۔ اپنے وقت کے بڑے ولی تھے۔ آج پوری دنیا میں ان کا جو مقام ہے، یہ انہی بزرگوں کو فیضان ہے۔

گویا یہ علمی جوہرات اسی تصوف کی منڈی سی تیار ہوتے ہیں۔ جن کی نصیحتیں دنیاوی فتنوں کے ساتھ ساتھ شیطانی اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ جو فارسی کے بڑے شاعر، ناصح اور اللہ والے گزرے ہیں, وہ تصوف میں حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ کی مرید تھے۔ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے شیخ کے ساتھ کشتی میں سوار کہیں سفر کر رہا تھا کہ انہوں نے مجھے دو نصیحتیں فرمائیں۔ پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا نہ سمجھنا۔ دوسری یہ کہ کبھی دوسروں کو برا نہ سمجھنا۔

کہنے اور سننے کو تو یہ ایک معمولی سی بات لگتی ہے۔ ورنہ درحقیقت اس میں زندگی کا بہت بڑا فلسفہ چھپا ہے۔ کیوں کہ اپنے کو آپ دوسروں سے اچھا سمجھنا ہی تو ہمیں تکبر، حسد، بغض اور غیبت جیسی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کو جنم دیتا ہے۔ قتل و غارت اور فساد کا سبب بنتا ہے۔ دوسروں کی تحقیر  کرنا اور کمتر سمجھنا ہی ہمیں عجب اور خودپسندی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔

حضرت شیخ سعدی خود فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھا، نوافل ادا کیے۔ مگر باقی تمام لوگ سو رہے تھے۔ میں نے والد صاحب سے عرض کیا کہ ہم تہجد پڑھ رہے ہیں اور یہ تمام غافل لوگ سو رہے ہیں۔ والد صاحب فرمانے لگے کہ کاش تو بھی ان کے ساتھ سویا ہوتا۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے تہجد کی توفیق دے دی ہے تو تو دوسروں کو غافل سمجھنے لگا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ تو بھی سویا رہتا تاکہ تیرے دل میں یہ عجب خیال پیدا ہی نہ ہوتا۔

خود کو دوسروں سے اچھا سمجھنا ہی زوال کی طرف پہلا قدم ہے۔ جب ایسی کیفیت پیدا ہو تو بس سمجھ لینا چاہیے کہ اب زوال شروع ہو گیا۔ اگر کوئی طالب علم کلاس میں پڑھائی کے اعتبار سے اچھا مانا جاتا ہے، پوزیشن بھی لیتا ہے تو کبھی کبھار لاعلمی میں دل کے اندر تکبر پیدا ہونے لگتا ہے کہ میں تو بڑا ذہین ہوں، قابل ہوں، پوزیشن ہولڈر ہوں۔ مگر شریعت یہ کہتی ہے کہ خود کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھے، بلکہ دل کو سمجھائے کہ میں کچھ بھی نہیں تھا، یہ تو سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ جب دل میں عجز و انکساری کی یہ کیفیت پیدا ہو گئی تو منزلیں قدم بوسی کو تیار کھڑی ہوں گی۔

اس پرفتن دور میں ہر کوئی ترقی اور طاقت کے میں حصول میں ایسا مگن ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ شاید دوسروں کو کچلے یا نیچا دکھائے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ ہر کوئی آگے بڑھنے کے چکروں میں خود کو سب کچھ اور دوسرے کو بے کار بتانے کی کوشش کرے گا۔ ایک مکینک دوسرے مکینک کی خامیاں بیان کرے گا کہ یہ میرا گاہگ بن جائے، ایک دکان دار دوسرے دکان دار بارے بدگمانیاں پیدا کرے گا کہ وہ دو نمبر سامان بیچتا ہے تاکہ لوگوں کو متنفر کر سکے، کبھی مارکیٹ ریٹ سے بھی کم چیز بیچے گا تاکہ دوسروں کے گاہگ توڑ سکے، گویا ہر محکمے کے لوگ خود کو اچھا اور دوسرے کو برا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میرا کام چلے۔

حالاں کہ دنیا کا مالک تو اللہ ہے، کامیابی، رزق، عہدہ اور عزت کی تقسیم اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تو ہم کیسے یہ سب بھول کر خود کی چالاکی اور جھوٹ کو رزق میں برکت کا سبب سمجھنے لگے ہیں۔ ذرا سوچیے! اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بھلا کیسے ترقی اور طاقت حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ "بے شک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ "جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔”

کبھی سخت گرمی اور کبھی سیلابی بارشیں یہ سب ہماری شامت اعمال کا نتیجہ ہے لہذا ہمیں اپنے اعمال درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اولیا اللہ، علماء اور نیک بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر حاصل ہو گی۔ خود سے عہد کریں کہ آج سے ہی علماء، صلحا اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی فکر کریں گے۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button