سیاستصحت

ضم اضلاع میں 400 سے زائد نرسز کی تقرری پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج

طیب محمد زئی

صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں ضم اضلاع میں 400 سے زائد نرسز کی تقرری کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ رٹ پٹیشن میں صوبائی حکومت، سیکرٹری صحت، ڈی جی صحت اور ڈی جی ضم اضلاع کو فریق بنایا گیا ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ 27 جون 2022 کو صوبائی محکمہ ہیلتھ کی جانب سے جاری کئے گئے مذکورہ اعلامیہ کو کالعدم قرار دیا جائے اور 8 ستمبر 2021 میں جاری کردہ لسٹ کو بحال رکھا جائے۔ رٹ پر سماعت آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔

جنوبی وزیر ستان تحصیل لدھا کے رہائشی امان اللہ نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ امان اللہ کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے 24 اکتوبر 2020 کو ضم اضلاع میں میل اور فی میل نرسز کی بھرتی کا اشتہار جاری کیا، جاری اشتہار کے مطابق باجوڑ کے لیے 100، مہمند پانچ، خیبر 95، اورکزئی چار، کرم 105، شمالی وزیرستان 68 اور جنوبی وزیرستان کے لیے 103 آسامیاں تھیں۔

امان اللہ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق وزیرستان سے ہے اور انہوں نے مذکورہ اشتہار دیکھ کر اپلائی کیا تھا جس میں وہ انٹرویو بھی پاس کر چکے تھے۔

امان اللہ کے مطابق جب اس حوالے سے انٹرویو اور دیگر امور مکمل ہو گئے اور ڈی جی صحت نے 8 ستمبر 2021 میں ایک لسٹ جاری کی جس میں ان کا نمبر 329 پر ظاہر کیا گیا، محکمہ ہیلتھ نے بعد میں ایک اور میرٹ لسٹ 27 جون 2022 کو جاری کی جس میں ضم اضلاع کے امیدواروں کو نظر انداز کیا گیا جس میں وہ بھی شامل تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھرتی کے اس سارے عمل میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کر کے میرٹ کو پامال کیا گیا ہے کیونکہ تمام ضم اضلاع سے جاری کردہ تعداد سے بھی زیادہ امیدواروں نے اپلائی کیا تھا لیکن صرف 41 امیدواروں کو سلیکٹ کیا گیا جو کہ ضم اضلاع کے بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے۔

سوشل میڈیا پر سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ضم اضلاع کے لیے خالی آسامیوں کی کل تعداد 481 تھی جس میں نان لوکل امیدواروں کی تعداد 440 جبکہ ضم اضلاع سے سلیکٹڈ امیدواروں کی تعداد 41 ہے جن میں جنوبی وزیرستان سے 2، نارتھ وزیرستان سے 1، ضلع کرم سے 7، ضلع اورکزئی سے 3، ضلع خیبر سے 3، ضلع مہمند 1 اور ضلع باجوڑ سے 24 امیدوار شامل ہیں۔

نورالحق قادری کے پیج سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ بھرتی ضم اضلاع کے لیے تھی۔

دوسری جانب ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور سوشل ورکرز نے بھی اس امتیازی سلوک کی شدید مخالفت کی۔ ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے صحافی نبی جان اورکزئی نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ ضم اضلاع کے عوام سے امتیازی سلوک ہے۔

انہوں نے سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ قبائلی عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے اس معاملے کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اُٹھائیں، بھرتی سیاسی بنیادی پر کی گئی ہے اور موجودہ وزیر اعلی محمود خان نے اپنے آبائی ضلع سے کثیر تعداد میں نرسز بھرتی کیے ہیں جو کہ ناانصافی ہے۔

انہوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انضمام کے وقت کیے گئے وعدوں کو پورا کریں اور ضم اضلاع کی محرومیوں کی ازالہ کرنے کے لیے قبائلی نوجوانوں کو نظرانداز کرنے کے بجائے اُنہیں ملازمت کے مواقع فراہم کریں۔

جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے وکیل سجاد احمد محسود کا کہنا تھا کہ امان اللہ سمیت ضم اضلاع کے دیگر سینکڑوں امیدواروں کو نظرانداز کرنا اور اُن کی جگہ نان لوکل امیدواروں کو منتخب کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ امان اللہ سلیکٹڈ امیدواروں کی پہلی فہرست میں 329 نمبر پر تھے جبکہ دوسری لسٹ میں امان اللہ سمیت ضم اضلاع کے سینکڑوں امیدواروں کو باہر کیا گیا جو کہ آئین اور قانون کے برعکس اقدام ہے کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق بھرتی کے عمل میں سب سے پہلے مقامی لوگوں کو ترحیح دی جاتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button