پاکستان میں ہر 100 حاملہ خواتین میں سے 10 ذہنی امراض میں مبتلا
ناہید جہانگیر
نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مردوں کی نسبت خواتین میں ذہنی امراض زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں اس کی شرح زیادہ ہے، اس کی وجوہات معاشرتی اور کلچرل مسائل کا زیادہ ہونا ہے۔
ماہر ذہنی امراض اسسٹنٹ پروفیسر محمد فراز کے مطابق اگر حاملہ خواتین کی بات کی جائے تو ان میں ذہنی امراض کی شکایات اور بھی ہیں، پاکستان میں ہر 100 حاملہ خواتین میں سے 10 خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہوتی ہیں۔
پشاور شہر کی آسیہ بچپن سے ذہنی طور پر کمزرو تھی لیکن والدین سمجھتے تھے کہ ان کی بچی بہت سادہ ہے لیکن جب وہ جوان ہوئی تو اس کا مسئلہ مزید بڑھ گیا، ڈاکٹر سے معائنہ کرانے کے بعد پتہ چلا کہ اس کو ذہنی مسئلہ ہے اور علاج شروع کیا۔
آسیہ نے اس حوالے سے بتایا کہ ڈاکٹر نے والدین کو یہ بھی بتایا تھا کہ جب تک ان کی بچی پوری طرح سے ٹھیک نا ہو جائے اس کی شادی نا کرائیں لیکن پھر بھی والدین نے دوران علاج اس کی شادی کرا دی، سال بعد جب پہلی اولاد بیٹی سے اللہ نے نوازا تو اس کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی، اب وہ 3 بچوں کی ماں ہے اور اب بھی کبھی کبھی اس کو دورے پڑتے ہیں۔
ڈاکٹر فراز نے آسیہ کی بیماری کے حوالے سے بتایا کہ حمل کے دوران اور بعد میں خواتین کو کافی ذہنی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شادی سے پہلے بعض خواتین ذہنی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور شادی ہونے کے بعد جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، بعض خواتین کو شادی سے پہلے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا پھر بھی جب حاملہ ہوتی ہیں تو ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہیں جیسے ہاتھ بار بار دھونا یا بچے کی پیدائش کے حوالے سے وسوسے یا وہم کرنا وغیرہ، مریضہ ہر وقت اداس رہتی ہے، دل کو کوئی خوشی نہیں ملتی، خوراک اور نیند پر اثر پڑ جاتا ہے خاص کر کہ بچے اور پریگننسی کے حوالے سے ہر وقت ڈر خوف میں مبتلا رہتی ہے، ان (ایسی خواتین) کا دوائی کے ساتھ ساتھ کونسلنگ سے بھی علاج ممکن ہوتا ہے اور زیادہ خطرناک بیماری بھی نہیں ہوتی لیکن بچے کی پیدائش کے وقت بہت سی خواتین دو خاص ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں؛ پیدائش کے بعد جو 2 ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں وہ پوسٹ نیٹل ڈپریشن اور پوسٹ پاٹرم سائکاسز ہیں، ان کی علامات میں بھی خوراک اور نیند کی کمی واقع ہونا شامل ہیں، ماں اپنا اور بچے کا خیال درست طریقے سے نہیں رکھ سکتی، اپنے بچے کو ٹھیک طرح سے اپنا دودھ نہیں پلاتی جبکہ ان ذہنی امراض کی عام وجہ ڈیلیوری کے وقت زیادہ تکلیف کا ہونا ہے۔
مردان کی عائشہ نے اس بارے میں بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی تو کافی خوش تھی، اس کے سسرال والوں نے بھی اس کے حاملہ ہونے کی خبر سنی تو کافی خوش ہوئے لیکن جب بھی ساس جیٹھانی لڑکے کی خواہش کرتیں تو وہ کافی پریشان ہو جاتی تھی کہ اگر لڑکا پیدا نا ہوا تو کیا ہو گا، پریشانی مزید بڑھ گئی، جب شوہر بھی اکثر بات بات پر بیٹے کی خواہش کرتا تھا، دوران حمل اس کی حالت کافی خراب ہوئی اور آپریشن کے زریعے بچی کو جنم دیا۔
عائشہ نے کہا کہ بچی کی پیدائش کے بعد زندگی سے بے زار ہونے لگی، اپنی بچی کی دیکھ بھال کیا اپنا بھی ہوش نہیں رہتا تھا، ڈاکٹر سے علاج جب شروع کیا تو انہوں نے کہا کہ علاج کرانے میں کافی دیر ہوئی ہے، 2 سالوں سے وہ اپنا علاج کروا رہی ہیں اور اب حالت کافی بہتر ہے۔
علاج دیر سے شروع کرنے کے حوالے سے اس نے کہا کہ دوران حمل زیادہ پریشانی کی وجہ سے اس کی نیند خراب ہوئی، کھانا پینا بھی کافی کم کیا اور جب بھی بے ہوش ہو جاتی تو ساس کہتی کہ حمل میں ایسا ہوتا ہے، پھر حالت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں دم تعویز کے لئے لے جایا گیا، اس سے بھی بات نہیں بنی تو ڈاکٹر سے معائنہ کرایا۔
اس حوالے سے ڈاکٹر فراز نے بتایا کہ حمل بہت سی خواتین کے لیے خوشی کا وقت ہوتا ہے لیکن بعض خواتین معاشرے کے منفی رویوں کی وجہ سے خود بھی منفی سوچ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ اس کی وجوہات مختلف ہیں، نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کے ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے خاص کر ان دو تین سالوں میں کووڈ 19 کی وجہ سے، پھر کورونا ہی کی وجہ سے پوری دنیا میں مالی بحران میں اضافے سے متوسط طبقے میں غربت کی شرح بڑھ گئی ہے جو مختلف ذہنی امراض کا سبب بن رہی ہے۔
دوسری اہم وجہ ڈیجیٹلائزیشن کا دور ہے؛ موبائل، لیب ٹاپ، اور ویڈیو گیمز وغیرہ لوگ ان میں مصروف ہو گئے ہیں خاص کر نوجوان طبقہ ڈیجیٹل سرگرمیوں میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ نارمل نیند پوری نہیں کرتے جو براہ راست ذہنی امراض کا باعث بن رہا ہے، یہ تو اوور آل بات ہے لیکن اگر صرف خواتین کے ذہنی امراض کی بات کی جائے تو مردوں کی نسبت خواتین میں ذہنی امراض زیادہ پائے جاتے ہیں اور پھر جہاں تک پاکستان یا خیبر پختونخوا کی بات ہے تو یہاں خواتین کو بہت ہی معاشرتی اور کلچرل مسائل ہیں اور سب سے اہم یہاں خواتین میں ہارمونیم ایفیکٹس کی وجہ سے بھی ان میں سٹریس یا ذہنی دباؤ والی بیماریاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر فراز کے مطابق جو سب سے اہم بات ہے ہمارے معاشرے میں لوگوں میں ذہنی بیماریوں کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے، جسمانی بیماری سب کو نظر آتی ہے، لوگ علاج میں بھی دلچپسی لیتے ہیں لیکن ذہنی امراض پوشیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو جنات جادوں وغیرہ سے منسلک کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ذہنی امراض خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں، اگر خواتین کی بات کی جائے تو ان میں ذہنی امراض میں اضافہ جنات، جادو، دم یا کام کاج کے لیے بہانے ڈھونڈنا، جیسے توہمات ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر محمد فراز نے کہا کہ وہ لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب بھی نیند خراب ہو، وسوسے یا وہم آتا ہو، چڑچڑاپن یا بے زاری، ہر وقت دل بے سکون اور ناخوش رہنا جیسی علامات خود میں محسوس کریں یا گھر میں کسی میں بھی نوٹ کریں تو فوراً ماہر ذہنی امراض کے ساتھ رابطہ کریں۔