کیا آپ جانتے ہیں پاکستان میں روزانہ کتنے بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں؟
شاہین آفریدی
دنیا بھر میں 31 مئی کو تمباکو کی روک تھام کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امسال تمباکو کے عالمی دن کا تھیم "تمباکو ہمارے ماحول کے لیے خطرہ” رکھا گیا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد کرہ ارض کے افراد اور معاشرے میں تمباکو کے مضر اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔
تمباکو ہمارے ماحول کو کئی طریقوں سے آلودہ کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ تمام لوگوں کی صحت کو خطرہ بناتا ہے۔ یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 6 ٹریلین سگریٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ ہر 300 سگریٹ کے بدلے ایک درخت کاٹا جاتا ہے۔ تمباکو کی کاشت بھی تقریباً 84 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج پیدا کرتی ہے جبکہ 22 ہزار میگا ٹن پانی سگریٹ بنانے پر صرف کیا جاتا ہے۔ اس سے تمباکو استعمال کرنے والوں کو اپنی صحت کی خاطر، اپنے آس پاس کے لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے چھوڑنے کا ایک اضافی حوصلہ ملنا چاہیے۔
پاکستان تمباکو پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 29 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ معاشیات کے لحاظ سے، پاکستانی سگریٹ نوش اوسطاً اپنی ماہانہ آمدنی کا 10 فیصد سگریٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ سب سے کم آمدنی والے گروپ کے 25.3 فیصد گھرانے سگریٹ پیتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ آمدنی والے گروپ کے 16.2 فیصد گھرانوں میں سگریٹ پی جاتی ہے۔
یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول (UICC) کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تمباکو پر قابو پانے کیلئے کام کرتا ہے جہاں دنیا کے 80 فیصد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ یہ ممالک تمباکو کے استعمال کا سب سے زیادہ ماحولیاتی بوجھ بھی برداشت کرتے ہیں۔
گلوبل ایڈلٹ ٹوبیکو سروے کے مطابق، 19.1 فیصد پاکستانی بالغ (15 سال سے زیادہ عمر کے) کسی بھی شکل میں تمباکو استعمال کرتے ہیں۔ 13 سے 15 سال کی عمر کے 10.7 فیصد بچے تمباکو کی کوئی بھی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ سستی اور آسان دستیابی کی وجہ سے ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سوسائٹی SPARC میں کام کرنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ "بدقسمتی سے کچھ معروف سیاست دانوں نے اس صنعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے تمباکو کے خلاف بنائے گئے قوانین کو بار بار روکا ہے۔”
پاکستان 27 فروری 2005 کو ڈبلیو ایچ او کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) کا فریق بنا۔ تاہم تمباکو کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کے بہت سے اقدامات FCTC کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جون 2019 میں وفاقی کابینہ نے تمباکو کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ، نگرانی اور کنٹرول کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے تمباکو نوشی کی ممانعت اور تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے تحفظ کے لیے صحت آرڈیننس 2002، بھی ابھی تک لاگو نہیں ہوا ہے۔
گزشتہ چار سالوں میں پاکستان نے تمباکو پر ٹیکس بڑھانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صحت ایک صوبائی موضوع بن گیا ہے اور تمام صوبوں کو اپنے اپنے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی انٹرینشل ہیلتھ ریگولیشن کی قوانین پر عمل درآمد نا ہونے کے برابر ہے۔ صوبے بھر میں صرف تین اضلاع ایبٹ آباد، ہری پور اور پشاور میں پراجکٹ بیسڈ کام ہو رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر نیک داد کا کہنا ہے کہ "محکمہ صحت، ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے تعاون سے صوبے کے ان تین اضلاع میں پبلک مقامات پر سگریٹ کا اشتہار، اس کا بیچنا اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ افزائی کرنا منع کیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں تمباکو نوشی کے خلاف آگاہی دی گئی ہے جبکہ باقی اضلاع تک بھی اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔”
دوسری جانب سگریٹ کی متبادل مصنوعات جیسے شیشہ، ویپس، ای سگریٹ اور نیکوٹین پیک سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں تمباکو کا استعمال پاکستانیوں کو کینسر، ذیابیطس، دل کی بیماری، فالج اور پھیپھڑوں کی دائمی امراض جیسے غیرمتعدی بیماریوں کا شکار بنا کر صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہا ہے۔
تمباکو اور تمباکو کے دھوئیں میں تقریباً 7,000 کیمیکلز ہوتے ہیں جن میں سے 250 زہریلے اور 60 کینسر (کارسنوجن) کا سبب بنتے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران شوکت خانم کینسر رجسٹری یہ ظاہر کرتی ہے کہ تمباکو کے استعمال سے منسلک کینسر عام کینسر کی فہرست میں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمباکو کے استعمال سے سالانہ 170,000 لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پشاور کے رہائشی خالق نور کے بھائی 45 سالہ جاوید نور کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ وہ روزانہ کے حساب سے 8 سے 10 سگریٹ پیتے تھے جبکہ موت سے کچھ عرصہ پہلے جدید طریقوں سے نشہ کے عادی ہو چکے تھے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
دوسری جانب کمشنر پشاور ڈویژن نے ضلع خیبر، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ میں نشئیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے۔ مختلف اضلاع سے 351 نشئی افراد کو، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، علاج معالجے کیلئے بحالی مراکز منتقل کیا گیا ہے۔ ان مراکز میں نشئی افراد کا تین مہینے مفت علاج کیا جائے گا۔
وزیراعلی کی جانب سے نشئی افراد کے لئے یہ اقدام خوش آئند ہے لیکن سپلائرز کے خلاف کوئی خاطرخواہ اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ اس حوالے سے پشاور کے ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ خان نے بتایا کہ "پولیس اور اینٹی نارکاٹیکس کے ساتھ مل کر ضلعی انتظامیہ سپلائرز کے خلاف بھی ایکشن لیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں کئی سپلائرز کو پکڑا گیا ہے جبکہ ان کی مکمل بیخ کنی کی جا رہی ہے۔”
مالی لحاظ سے تمباکو کے استعمال سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔ دوسری طرف 2019 میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی 120 بلین ہے جو تمباکو نوشی کی کل لاگت کا تقریباً صرف 20 فیصد ہے۔ پاکستان میں تمباکو کی صنعت تمباکو کنٹرول کے حوالے سے عوامی پالیسی میں باقاعدگی سے مداخلت کرتی ہے۔
یہ صنعت تعلیمی اداروں کے قریب دلکش لیکن گمراہ کن اشتہارات اور فروخت کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے سیلز اور پروموشن قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی کرتی ہے۔