صحتکالم

ضم اضلاع: ہسپتال یا بی ایچ یوز کی ضرورت ہی کیا ہے؟

محمد سہیل مونس

ہسپتال چاہے نجی ہوں یا سرکاری، داخل ہوں تو لگتا ہے کہ پورا پاکستان بیمار پڑ گیا ہے، شہر تو شہر دوردراز علاقوں سے بھی مریض یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے ملحقہ علاقوں کے علاوہ ضم شدہ اضلاع سے لے کر سرحدپار افغانستان کے مریض بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں۔

اس حالت کی ذمہ دار تو بہرطور حکومت ہے جو پچھلے 75 برس میں ناقص منصوبہ بندی کے تحت چل رہی ہے، شہر کے صدیوں پرانے شفاء خانوں کی اپگریڈیشن اور تزئین و آرائش پہ اربوں خرچ کرتی ہے لیکن دورافتادہ علاقوں میں نہ تو ہسپتال بناتی ہے اور نہ درسگاہیں! اس کے سبب سارا بوجھ چند بڑے بڑے شہروں پہ پڑتا ہے۔

اس طرح کی صورت حال میں لوگ گلہ ڈاکٹرز اور دیگر عملے سے کرتے ہیں۔ جب ایک جم غفیر صبح صادق شفاء خانوں میں در آتا ہے تو کس کی اتنی سکت ہے کہ ہر مریض کی اچھے طریقے سے تشخیص کر سکے۔ ایک جانب منصوبہ بندی کا فقدان تو دوسری جانب چھوٹے شہروں اور تحصیلوں میں عالمی معیار کے شفاء خانوں کی اشد کمی جس کی وجہ سے وہاں کے عوام رل جاتے ہیں۔

خیر ہم آتے ہیں سابقہ فاٹا کی صحت کے مسائل کی جانب!

اس وقت ضم شدہ اضلاع میں چھوٹے موٹے سول ہسپتال اور بیسک ہیلتھ یونٹس کام کر رہے ہیں لیکن وہ کسی دل جلے کی بات کہ یہ بنے اس لئے ہیں کہ جب بھی یہاں مریض کو لے کر جانے کا اتفاق ہو تو چھوٹے موٹے فرسٹ ایڈ کے بعد شہر کے بڑے ہسپتال کا ریفر چٹ تھما دیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اگر ایک حاضر سروس ڈاکٹر نے ریفر کا چٹ ہی تھمانا ہے تو ہسپتال یا بی ایچ یو کی ضرورت ہی کیا ہے، ایک چھوٹے سے کمرے میں بندہ بٹھا کر ریفر چٹ ہی جاری کر دیا کرے اتنے سارے عملے کی تنخواہیں دینے کی کوئی تک تو نہیں بنتی۔

یہ گلہ تو بجا ہے لیکن سابقہ فاٹا اور دیگر دیہی علاقوں میں صحت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات غیرتسلی بخش ہیں۔ ہم اکثر شہر کے ہسپتالوں میں لوکلز کے علاوہ بڑی تعداد میں پہاڑوں سے اتری ماں بہنوں کو اپنے مردوں کے ساتھ دھکے کھاتے دیکھتے ہیں، نہایت کوفت بھی ہوتی ہے لیکن ان کی غلطی صرف اتنی ہے کہ ان میں سے کافی تعداد غیرتعلیم یافتہ افراد کی ہوتی ہے۔

یہ لوگ اکثر صحت کے اصولوں کا خیال نہ رکھتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں جس کی ایک خاص وجہ تربیت کا فقدان بھی ہے جس کے سبب زندگی کے بنیادی اصولوں کو فالو نہ کرنے کی وجہ سے بھی وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ پھر شہر کے سرکاری ہوں یا نجی، تمام شفاء خانوں میں ان کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر ڈاکٹرز بمع عملہ ان کی الٹی چمڑی ادھیڑتے ہیں۔

میں نے سرحد پار سے آئے مریضوں کو دو سے تین ماہ کی دوائیں بوریوں میں ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب ہم ان کی سادگی اور ڈاکٹرز کے قصائی پن کا تو کچھ بھی نہیں کر سکتے لیکن اگر ان کے اپنے علاقوں میں موجود شفاء خانوں کو اپ گریڈ کر لیا جاتا ہے اور قابل ڈاکٹرز و عملہ کی ٹیمیں تعینات کر دی جاتی ہیں تو گھر کی دہلیز پہ ان لوگوں کو صحت کے بہترین مواقع مل سکتے ہیں۔

سابقہ فاٹا اور دیگر علاقوں کے شفاء خانوں میں آج بھی قابل اور محنتی ڈاکٹرز دستیاب ہیں لیکن جس چیز کی کمی ہے وہ ہیں جدید آلات، مشینیں اور آپریشن تھیٹرز کے علاوہ ہسپتال کے عملہ کے لئے بہترین مراعات و رہائش! اگر حکومتوں نے ذرا سی سنجیدگی دکھائی تو دستیاب وسائل میں انشاء اللہ ہمارے عملہ صحت کے محنتی کارکن اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ کمیاب وسائل ہی مسائل کا سبب بنتے ہیں اور ہمارے قبائلی اضلاع سے لے کر افغانستان کے مریض بھی پشاور سے ہوتے ہوئے اسلام آباد بلکہ کراچی تک سفر کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن جو رش ہمارے ہسپتالوں پہ پڑتا ہے تو نہ لوکلز کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال ہوتی ہے اور نہ ان بچاروں کی، بس سارا سارا دن خانہ پری کرتے بیت جاتا ہے۔

ان مسائل کے حل کے لئے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں، جو فنڈ شہر کے ہسپتالوں پہ خرچ ہوتا ہے اسی فنڈ میں سے دوردراز علاقوں میں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس اقدام سے جہاں سابقہ فاٹا کے عوام اتنی مسافت طے کر کے بڑے شہروں میں امڈ آتے ہیں اور یہاں ان کی درگت بنتی ہے تو وہاں اپنے ہی علاقے میں صحت کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ان مریضوں کے نہ آنے سے شہر کے شفاء خانوں پر بوجھ میں نمایاں کمی بھی آئے گی اور اہل علاقہ کو سکھ کا سانس لینا بھی نصیب ہو گا کیونکہ ایک جانب ان کی تشخیص کو ڈاکٹر وقت دیا کرے گا تو دوسری طرف ان سب کا کافی وقت بھی بچ جائے گا۔

سابقہ فاٹا میں ان اصلاحی اقدامات کی وجہ سے وہاں کے لوکل ڈاکٹرز، پریکٹیشنرز اور لیب ٹیکنیشنز کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے تو سب سے اہم بات یہ ہو جائے گی کہ اپنے لوگوں کی ذہنیت و زبان سے واقفیت کی وجہ سے مریضوں کو گائیڈ کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ سرحدپار کے مریضوں کو بڑے بڑے شہروں کے دھکے کھانا نہیں پڑیں گے بلکہ نہایت ہی آرام سے علاج معالجہ کی سہولت سے مستفید ہو کر چلے جایا کریں گے۔

ایک اہم بات جو اچانک سے یاد آ گئی وہ یہ ہے کہ سابقہ فاٹا کے امیر کبیر لوگ بڑے بڑے شہروں میں نجی میڈیکل سینٹرز اور بڑے بڑے پلازے بناتے نہیں تھکتے اگر یہی لوگ اپنے علاقوں میں صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر لیں تو ایک جانب دکھی انسانیت کا بھلا ہو گا اور دوسری جانب یہ اچھی خاصی کمائی بھی کر سکتے ہیں۔

ان تمام تجاویز پہ عمل کرنا محکمہ صحت کی صوابدید ہے لیکن اگر عمل کر لیا جائے تو مستقبل میں یہ مسائل مزید گھمبیر ہونے سے روکے جا سکتے ہیں۔

اس تحریر کے توسط سے ضم شدہ اضلاع کے سادہ لوح عوام سے اتنا ہی التماس کرتا چلوں گا کہ کھانے پینے اور خصوصاً ڈھلتی عمر کے ساتھ متوازن خوراک لینے کی کوشش کریں، زیادہ گوشت اور چکنائی والی خوراک نہ کھائیں اور دوران زچگی حاملہ خواتین کی صحت کا خاص خیال رکھیں، زمانہ بدل گیا ہے، خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور زندگی کو قدرت کے اصولوں کے تحت گزارنے کی طرف آئیں۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button