صحت

خیبر پختونخوا: کورونا سے جاں بحق محکمہ صحت کے اہلکار تاحال شہدا پیکج سے محروم

محراب شاہ آفریدی/طیب محمد زئی

خیبر پختونخوا میں نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کورونا وباء کے دوران وفات پانے والے اہلکاروں کو شہدا پیکج تاحال نہیں ملے جس کی وجہ سے ان کے خاندان انتہائی مشکلات سے دوچار ہیں جبکہ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ شہید اہلکاروں کی ڈاکومنٹیشن کی تصدیق کرنے میں کافی وقت لگتا ہے لیکن اس پر کام جاری ہے اور جلد ہی وہ پیکج شہداء کے خاندانوں کو فراہم کئے جائیں گے۔

ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن حیات آباد کے صدر ڈاکٹر صابر نے بھی کورونا وباء کے دوران ڈاکٹروں کو سہولیات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے اور این سی او سی کی جانب سے ملنے والی رقم حکومتی اہلکاروں نے اپنی جیبوں میں ڈال دیئے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وباء کےد وران محکمہ صحت کے اہلکاروں نے جان پر کھیل کر وبا کو شکست دی اور پھر معاوضے کی صورت میں حکومت سے کئی بار مذاکرات کئے مگر تاحال بہت کم افراد کو پیکج ملے ہیں لیکن بیشتر متاثرہ خاندان اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔

ڈاکٹر صابر کے مطابق وبا کی وجہ سے ان کے محکمے کا ایک ڈاکٹر کورونا کی وجہ سے سخت بیمار ہوا جس کے ساتھ اپنے علاج کیلئے پیسے نہیں تھے اور نہ ان کے صحت کارڈ کام آیا، "ہم نے خود اپنے جیب خرچ سے اس ڈاکٹر کا علاج کروایا اور وہ صحت مند ہو کر دوبارہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں لیکن اس وقت نہ صحت کارڈ ا کے کام آیا اور نہ حکومتی دعوے۔”’

انہوں نے وفات پانے والے افراد کی پنشن کے بارے میں بتایا کہ ان میں بیشتر افراد کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر لیا گیا تھا جن کو پنشن یا دیگر مراعات تاحال نہیں ملی ہیں۔

حیات آباد میڈیکل میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹر فخر عالم نے کورونا وبا کے دوران پیش آنے والے مسائل پر اور ان کو شہداء پیکج نہ ملنے پر بتایا کہ کوویڈ کے دوران محکمہ صحت کے اہلکاروں نے فرنٹ لائن ورکر کے طور پر کام کیا ہے جن میں تقریباً 80 افراد شہید ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان کو 25 لاکھ روپے تک شہدا پیکج دینے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اب تک یہ رقم تو نہیں صرف 10 شہداء کے ورثاء کو فی کس 10 لاکھ روپے ملے ہیں مگر 70 افراد تاحال حکومتی پیکج کے منتظر ہیں جس کے لئے ڈاکٹروں نے کئی بار ہڑتال بھی کی، حکومتی حکام سے مذاکرات بھی کئے مگر یقین دہانی کے باوجود معاوضے اور شہداء پیکج نہیں ملا۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے لیت و لعل پر کہا کہ حکومت کا یہی موقف ہے کہ حکومت مالی مشکلات کا شکار ہے اس لئے وہ اتنی جلدی یہ رقم فراہم نہیں کر سکتی، ”کوویڈ وارڈز میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو ایکسٹرا معاوضہ اور پی پی ایز بھی نہیں ملتا جس کے لئے وہ خود اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے پی پی ایز خریدتے تھے مگر اب یہ مسائل تھوڑے حل ہو چکے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوویڈ کے دوران شہداء کے خاندانوں کو پیکج، ٹرینی ڈاکٹروں کو معاوضے جلد از جلد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر صائمہ نے کہا کہ اب تک خیبر پختونخوا میں محکمہ صحت کے اہلکاروں سمیت 84 افراد کورونا وبا کی وجہ سے اپنی جانیں دے چکے ہیں جن میں پیرامیڈیکس، کلاس فور، ٹیکنیشن اور ڈاکٹرز شامل ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے شہیدا پیکج سب کیلئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزرات صحت کی جانب سے شہداء پیکج کیلئے جو شرائط دی گئی ہیں ان کو پورا کرنا نہایت مشکل بنا دیا گیا جن میں ان کے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ نے بتایا کہ محکمہ صحت کے شہید اہلکاروں کیلئے اعلان کردہ پیکیج بلا امتیاز پیکیج دیا جاتا ہے اور اس میں اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ کون چھوٹا اور کون بڑا ملازم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو کتنے پیکج ملیں گے وہ سیکرٹری آفس سے معلومات ہوں گی لیکن یہاں پر ہماری ٹیکنیکل سپورٹ ٹیم صرف اموات اور کورونا شرح کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کا مجاز ہے۔

ڈاکٹر صائمہ اس بات کی تصدیق کی کہ شہداء کے بیشتر خاندانوں کو تاحال رقم ملی نہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کاغذی کارروائی نہایت لمبی چوڑی ہے اس لئے شہداء کے خاندانوں کا شکوہ بجا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو اہلکار کسی ہسپتال میں شہید ہو جائے تو اس کے خاندان والے ان کے کاغذات ڈی ایچ او، پھر سیکرٹری ہیلتھ اور پھر ڈٰی جی ہیلتھ تصدیق کر کے ہمیں بھجوایا جاتا ہے تب ہم یہ عمل آگے کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صائمہ کے مطابق کاغذات میں کورونا وائرس کے تصدیقی سرٹیفیکیٹ، اپوئنٹمنٹ آرڈر، فرنٹ لائن ورکر سرٹیفیکیٹ، نادرا سے فیملی رجسٹریشن اور عدالت سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ اکٹھا کرنا شرائط میں شامل ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button