سیاستکالم

اور کانپیں ٹانگ گئیں۔۔۔!

عبدالمعید زبیر

شکست خوردہ نااہل حکمرانوں کی طرف سے 10 مارچ کی شام شہر اقتدار میں ایک شرم ناک واقعہ پیش آیا کہ اسلام آباد پولیس نے شاہی نوکر کا کردار ادا کرتے ہوئے پارلیمنٹ لاجز میں گھس کر اراکین اسمبلی کو یرغمال بنایا، مزاحمت میں ہاتھا پائی ہوئی، انہیں گرفتار کیا، داڑھی پگڑی کی توہین کی اور وہاں موجود انصار الاسلام کے کارکنان کو مجرموں کی طرح گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ وہاں موجود دیگر جماعتوں کے قائدین بات چیت کر رہے ہیں کہ یہاں پارٹی کارکنان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ان سب کو ہم نے اجازت دی ہے، یہ ہمارے لوگ ہیں, غیرمسلح ہیں، کوئی فساد فتنہ کرنے نہیں آئے، اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ ان کی تلاشی لے۔ لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ الٹا ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا۔

واقعہ کے فوراً بعد حکومتی عہدیدار متحرک ہوئے اور جھوٹ کا سہارا لے کر دعویٰ کرنے لگے کہ یہ ایک ملیشیا ہے، یہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنانا چاہتے تھے، قانون کو ہاتھ میں لینا چاہتے تھے۔ فلاں فلاں۔ مگر ساری قوم نے دیکھا کہ قانون کس نے ہاتھ میں لیا، روایات کو کس نے کچلا اور پارلیمنٹیرینز کو کس نے یرغمال بنایا؟

معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان صاحب فوراً پارلیمنٹ لاجز پہنچے اور گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف اپنے کارکنوں سے پورے ملک کو جام کرنے کا کہہ دیا۔ ایک آدھ گھنٹے میں جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں نے کراچی سے لے کر خیبر پختونخوا تک تمام بڑی شاہراہوں کو بلاک کر کے یہ پیغام دیا کہ ہم "مولانا” کو بھی مانتے ہیں اور ان کا حکم بھی۔

ایک دن قبل اپوزیشن کو ‘میری بندوق کی "نشست” پر ہو’ کی دھمکیاں دینے والے عمران خان کی، مولانا کی ایک للکار کے بعد راتوں رات ”کانپیں ٹانگ گئیں”، عقل ٹھکانے لگ گئی، طاقت کا بھوت جلد اتر گیا اور صبح ہوتے ہی تمام لوگوں کو رہا کر دیا گیا۔ خان صاحب کو جلد ہی ادراک ہو گیا کہ یہ زرداری یا نواز شریف نہیں، جسے فائلیں دکھا کر یا جیلوں سے ڈرا کر دبایا جا سکے، بلکہ یہاں سے تو اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔

اس تمام صورت حال کے بعد یہاں کچھ سوال جنم لیتے ہیں کہ کل عمران خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو پارلمینٹ پر حملہ کرتے تھے، آج جب حکومت میں ہیں تو پارلیمنٹیرینز پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ شخص قومی لیڈر ہے یا قومی دہشت گرد؟

کیا انصار الاسلام کوئی کالعدم تنظیم ہے؟ اگر نہیں تو اتنا تماشا لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پارلیمنٹ میں موجود کارکنان کیا مسلح تھے؟ جو ان پر دھاوا بولا گیا اور پھر گرفتار کیا گیا؟ اگر نہیں تو حکومت کو طاقت کے استعمال کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

کیا پارلمینٹ لاجز میں کسی تنظیم یا کارکن کا جانا غیرقانونی ہے؟ اگر نہیں تو قانونی طریقے سے اجازت لے کے آنے والے چند لوگوں کو یرغمال کیوں کیا گیا؟ ایم این ایز کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ حالانکہ یہ خود وہ لوگ ہیں جو جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور ملک جام کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ جو ماردھاڑ کا حکم دیتے تھے۔ جب ملک ترقی کر رہا تھا تو یہ لوگ ملک مخالف تحریک چلاتے تھے۔

ساری صورتحال سے قوم آگاہ رہی مگر پھر جھوٹ کا سہارا لیا گیا کہ مولانا اپنے لوگوں کی رہائی کے لیے منتیں کرتے رہے، اسلام آباد پولیس کا بیان آیا کہ ہم نے کسی ایم این اے کو گرفتار نہیں کیا۔ حالانکہ ساری قوم دیکھ چکی تھی، مولانا کا لہجہ معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ تھا۔ اور ویڈیوز موجود ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایم این ایز کو بڑے توہین آمیز طریقے سے گرفتار کیا گیا، ان کی پگڑی تک روندی گئی۔ حالانکہ یہ سب پرامن لوگ تھے۔

عدم اعتماد کے موسم میں خان صاحب کو اپنی کارکردگی دکھانے کی ضرورت تھی مگر انہوں نے اپنی اوقات دکھانا شروع کر دی۔ جب کچھ سچ بولنے کو نہ بچا تو جھوٹ بولنا، دھمکیاں دینا اور طاقت کا استعمال شروع کر دیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، بددیانت تو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت، نااہل اور فاسق لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔

دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! امانتوں کے ضائع ہونے کا کیا مطلب؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب امور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔

حدیث مبارکہ کی رو سے دیکھا جائے تو ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ نظر آتا ہے۔ بلکہ جھوٹ اتنے پراعتماد طریقے سے بولا جاتا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے جھوٹے اور نااہل لوگ قوم پر مسلط ہو چکے ہیں کہ
بسااوقات سچے انسان کو خود پر شک ہونے لگتا ہے کہ میں جھوٹ تو نہیں بول رہا؟ سیاست جیسے عظیم منصب کو اتنا گندہ کر کے رکھ دیا کہ شریف آدمی کا رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آپسی اختلافات کو مخالفت کی حد تک پہنچا دیا گیا۔ گویا تبدیلی کا سونامی ملک سے ترقی، قوم سے سکون، سیاست سے رواداری اور نوجوانوں سے تہذیب چھین لے گیا ہے۔

نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button