پاراچنار میں فضائی آلودگی سے امراض اور تدارک کے لیے اقدامات کی ضرورت
علی افضل افضال
ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار کی آٹھ سالہ شہزادی کا اصل نام تسکین زہرا ہے مگر مخصوص اداؤں اور خوبصورت چہرے کی وجہ سے گھر میں شہزادی کہلاتی ہے تاھم شہزادی گلے کی خرابی اور چہرے کی دانوں کی علاج کیلئے ہر دوسرے ہفتے ہسپتال جاتی ہے شہزادی کا کہنا ہے کہ جب بھی چہرے پر سرخ دانے نمودار ہوتے ہیں اسے شدید جلن اور تکلیف محسوس ہوتی ہے اور وہ کئی سال سے علاج کررہی ہے شہزادی کی والدہ مہناز بی بی کا کہنا ہے کہ اس کی ننھی پری جو کہ اب کلاس ون میں پڑھ رہی ہے تین سال سے اپنے ہر امتحان میں کلاس میں فسٹ آرہی ہے مگر گلے کی خرابی اور چہرے پر با بار سرخ دانے نمودار ہونے کے باعث نہ صرف بچی پریشان رہتی ہے بلکہ یہ صورتحال ان کیلئے بھی پریشان کن ہے مہناز بی بی کا کہنا تھا کہ صرف شہزادی ہی نہیں بلکہ ان کے بیٹے پندرہ سالہ مصطفی اور سترہ سالہ مرتضی کو بھی گلے کے علاج کیلئے باقاعدہ طور پر ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے۔
ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ چلانے والے ساٹھ سالہ میر علی کا کہنا تھا کہ ایف سی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب میں اپنے آبائی شہر پاراچنار آیا اور مستقل رہائش اختیار کرلی تو تب سے میں سانس لینے میں تکلیف محسوس کررہا ہوں اور بار بار علاج کیلئے پشاور جاتا ہوں اور یہی حال میری اہلیہ کی بھی ہے میر علی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر بتا رہے ہیں کہ گرد و غبار اور آلودگی کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہورہے ہیں حکومت پاراچنار شہر کو آلودگی س بچانے کیلئے اقدامات کریں۔
پاراچنار کے چوبیس سالہ سماجی کارکن جنان حسین کا کہنا تھا کہ وہ خود فضائی آلودگی کی وجہ سے گلے کی خراش اور جلدی امراض کے باعث مشکلات کا شکار ہیں اور بار بار ڈاکٹروں سے علاج کروا رہے ہیں اور اس کا چھوٹا بھائی فراز بھی جلد کی مرض کا شکار ہے۔
پاراچنار کے صحافی جاوید بنگش بتا رہے ہیں کہ پاراچنار شہر میں گرد و غبار کی وجہ سے نہ صرف امراض پھیل رہے ہیں بلکہ صبح ہمارے بچے صاف کپڑے پہن کر سکول جاتے ہیں اور واپسی پر ان کے کپڑے گرد و غبار کی وجہ سے ناقابل دید ہوتے ہیں اور اسے بھی گرد و غبار کی وجہ سے بار بار الرجی اور گلے کے مرض کے علاؤہ جلدی امراض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور چار بار ڈاکٹروں کے پاس علاج کیلئے جانا پڑتا ہے۔
ملک محمد علی نامی ایک اور نوجوان کا کہنا تھا کہ کمسنی میں وہ پولیو کا شکار رہا اور اب پاراچنار میں گرد و غبار کی وجہ سے وہ دمے کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے اور مسلسل وہ کئی سالوں سے پاراچنار اور پشاور کے ڈاکٹروں سے علاج کر رہے ہیں۔
پرائیوٹ سکولز ایسوسی ایشن ضلع کرم کے صدر محمد حیات خان کا کہنا تھا کہ طلبہ جب سکول جاتے ہیں تو گرد و غبار کی وجہ سے ان کا برا حال ہوتا ہے اور بارش کے دوران پھر یہی گرد و غبار کیچڑ بن کر بچوں اور دیگر راہ گیروں کیلئے مزید مسائل پیدا کررہے ہیں محمد حیات خان کا کہنا تھا کہ سکول میں بہت سے بچے گلے کی خراش اور کھانسی کی شکایت کرتے ہیں اور آج کل کورونا کی بیماری کی وجہ سے دوسرے بچوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاراچنار جہاں روزانہ آنے والے ایک ہزار سے زائد مریضوں میں ذیادہ تر گلے کھانسی نزلہ زکام الرجی اور جلدی امراض ہوتے ہیں ان امراض کی وجہ سے ڈاکٹرز صرف اور صرف پاراچنار میں فضائی آلودگی بتاتے ہیں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو مریض مسلسل ان امراض کا علاج کرنے کے بعد بھی صحت یاب نہیں ہوتے انہیں علاج کی غرض سے پشاور اور دیگر ہسپتالوں میں بھجواتے ہیں ہسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر ممتاز حسین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال دو لاکھ چھبیس ہزار مختلف امراض کا شکار مریض علاج کی غرض سے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں رجسٹرڈ ہوئے جن میں ایمرجنسی وغیرہ بھی شامل ہے ڈی ایم ایس کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں فضائی آلودگی سے زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاراچنار میں چلڈرن سپیشلسٹ ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ان کے پاس زیادہ تر امراض ائر پلوشن سے متاثرہ لوگوں کی ہوتی ہے کیونکہ شہر میں گرد و غبار کا مسلہ ایک سنگین مسلہ بنتا جارہا ہے ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ بچے بھی گرد و غبار اور فضائی آلودگی کی وجہ سے ذیادہ تر متاثر ہورہے ہیں اور آلودگی سے پھیلنے والے خطرناک امراض میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نہ صرف ہسپتال میں وہ فضائی آلودگی سے متاثرہ مریضوں کی علاج میں دن گزراتے ہیں بلکہ کلینک پر بھی اکثریت اس قسم مریضوں کی ہوتی ہے ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ وہ اکثر مریضوں کو ماسک کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں مگر احتیاطی تدابیر پر بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہسپتال کے مختلف وارڈز مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور اکثر مریض غربت کی وجہ سے علاج کی استطاعت نہ رکھنے کا رونا رو رہے ہیں اور اس قسم مریضوں کے ساتھ ہسپتال سے بھی خصوصی تعاون کی جاتی ہے اور مفت ادویات فراہم کی جاتی ہے ، پشاور کوہاٹ اور قبائلی اضلاع میں کام کرنے والے جلدی امراض کے ماہر ڈاکٹر یوسف داوڑ کا کہنا ہے کہ پاراچنار سے کوہاٹ اور پشاور جو بھی مریض آتے ہیں ان میں اکثریت فضائی آلودگی اور گرد و غبار سے متاثرہ افراد کی ہوتی ہے دمہ نزلہ زکام گلے کے امراض اور جلد کے مختلف امراض کے شکار افراد پاراچنار سے ذیادہ آتے ہیں ڈاکٹر یوسف داوڑ کا کہنا تھا کہ جلدی امراض پر اگر ٹھیک طریقے سے قابو نہ پایا گیا اور ٹھیک طریقے سے علاج نہ کیا گیا تو اس سے کینسر ڈویلپ ہوتا ہے اور کینسر جیسی جاں لیوا بیماری کا علاج موجودہ مہنگائی کے دور میں غریب لوگوں کی بس کی بات نہیں اس لئے لوگ احتیاطی تدابیر پر زیادہ توجہ دیں اور فضائی آلودگی سے خود کو بچائیں اور ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
سماجی رہنما جاوید جے جے کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی اور گرد و غبار سے بیمار ہونے والے درجنوں ایسے مریض ان کے پاس آتے ہیں جو مسلسل علاج کے باوجود کینسر اور دیگر موذی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور چونکہ ایسے مریضوں خصوصا کینسر مریضوں پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اس لئے ایسے مریضوں کی علاج اور مدد کیلئے یا تو سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے اور یا اس قسم مریضوں کی مدد کیلئے بنائے گئے تنظیم درماں کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے جاوید جے جے کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاراچنار شہر میں فضائی آلودگی ختم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے اور عوام کو نت نئے امراض سے نجات دلائیں اور ان مسائیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اندرون شہر اور پاراچنار کے اطراف میں سڑکوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔
بلدیہ پاراچنار میں کام کرنے والے خاکروب پروین کا کہنا تھا کہ وہ دیگر عیسائی ملازمین کے ہمراہ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی اور جھاڑو لگاتی تھی مگر جب سے ان کی تنخواہیں بند ہوگئی ہے تب سے شہر کی صفائی ستھرائی پر وہ پہلے کی طرح بھر پور توجہ نہیں دے سکتی جبھی شہر میں گرد و غبار بڑھ گیا ہے اور ہر جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں چونکہ انہیں تنخواہ ملتی نہیں اسی وجہ سے ملازمین بھی شہر کی صفائی پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے اپنا چولہا چلانے کے فکر میں سرگرداں ہیں۔
بلدیہ پاراچنار کے چیف آفیسر سید بہار حسین سے جب پاراچنار میں گرد و غبار کے مسائل اور فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والےمسائیل کا ذکر کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاراچنار شہر میں ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے اور بلدیہ ملازمین کی تنخواہیں بھی گذشتہ کئی سالوں سے بند ہیں گذشتہ ہفتے ملازمین کو تین کروڑ روپے کی فنڈ سے پینتیس مہینوں کی بقایا تنخواہیں دی گئیں ہے اور ملازمین کو اب مزید چودہ کروڑ روپے کی تنخواہیں ادا کرنے ہیں اور کئی سالوں سے ملازمین بغیر تنخواہ کے کام کررہے ہیں مگر یہ مسلہ حل ہونے ولا ہے اب شہر میں اس قسم مسائل کو حل کرنے کیلئے پندرہ کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جس سے شہر کی بیوٹی فیکیشن کی جائے گی اور فضائی آلودگی اور گرد و غبار کے مسائل فٹ پاتھ کی تعمیر گلیوں کی پختگی سے ختم ہو جائیں گے۔
بلدیہ کے چیف آفیسر کا کہنا تھا کہ اب ملازمین کی تنخواہوں کا مسلہ بھی کچھ حد تک حل ہوگیا ہے اور نئے منظور شدہ منصوبے سے اس مسلے پر قابو پایا جائے گا سید بہار حسین نے مسلے کے مکمل حل کے حوالے سے کہا کہ شہر میں پلانٹیشن کی جائے اور لوگ بھی پلانٹیشن میں حصہ لیں تو نہ صرف پاراچنار شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا بلکہ فضائی آلودگی پر بھی قابو پایا جائے گا دوسری جانب بلدیہ پاراچنار کے اسسٹنٹ کمشنر عامر نواز کا کہنا ہے کہ شہر میں فضائی آلودگی میں عوام کی لاپرواہی بھی شامل ہے عوام اگر اپنے شہر کو صاف و ستھرا رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تو فضائی آلودگی کے مسلے پر قابو پانا کوئی بڑی بات نہیں تاہم عوام کی عدم دلچسپی سے فضائی آلودگی سے مسلے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اسسٹنٹ کمشنر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے شہر کو ہر قسم آلودگی سے پاک رکھ کر اپنے شہر اور ملک کو خوبصورت بنانے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور بیماریوں پر قابو پائیں اسسٹنٹ کمشنر عامر نواز کا کہنا تھا کہ پاراچنار شہر کیلئے حکومت کی نئی منصوبہ بندی پر آیندہ چند روز میں کام شروع کیا جا رہا ہے۔ پاراچنار شہر کی قدیم آبادی سرکاری 2017 کے سروے کے مطابق صرف چھبیس سو نفوس پر مشتمل ہے تاھم اب بائی پاس کے تعمیر کے بعد پاراچنار کی آبادی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب پاراچنار شہر اور نئی آبادی ساٹھ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔