تعلیم

دینی مدرسے کا طالبعلم فتح الدین، جن کے پاؤں ہی ان کے ہاتھ ہیں

 

شاہد خان

ملک بھر میں وفاق المدارس کے زیر اہتمام امتحانات جاری ہیں جس میں 4 لاکھ 70 ہزار  942  طلبا حصہ لے رہے ہیں۔  خیبرپختونخوا کے دینی مدارس کے 2لاکھ 24 ہزار طلباء بھی امتحانات دے رہے ہیں۔ ان طلباء میں فتح الدین بھی شامل ہے جو دوسرے درجے کا امتحان دے رہا ہے، فتح الدین کا تعلق اپر چترال کے پسماندہ علاقے مستوج کے ایک چھوٹے سے گاوں سے ہے اور اس وقت جامعہ عبداللہ بن ابن عباس میں زیر تعلیم اور رہائش پذیر ہے۔

وفاق المدارس کے تحت جاری امتحانات میں شریک فتح الدین دوسرے طلباء کے برعکس پاوں سے کاغذ پر لکھتا ہے کیونکہ فتح الدین پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں سے محروم ہے، ایک ہاتھ مکمل طور پر نہیں ہے جبکہ دوسرے ہاتھ میں صرف دو انگلیاں ہیں جو ساکت ہیں۔ فتح الدین پاوں کی انگلیوں میں قلم تھام کر لکھنے میں مہارت رکھتا ہے۔

فتح الدین کے مطابق اس کا والد گاوں میں ترکان کا کام کرتا ہے ، جب ہوش سنبھالا تو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا،مڈل تک تعلیم گاوں میں حاصل کی ہے۔ اس کے بعد حافظ قران بننے کا شوق ہوا تو آزاد کشمیر جاکر وہاں داخلہ لیا۔ جب سکول میں تھا تو دینی علوم سے محبت پیدا ہوگئی، علماءکرام کے ساتھ بیٹھنے اور وقت گزارنے کی چاہت دل میں پیدا ہوئی ، گھر والوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ سکول چھوڑ کر دینی علوم حاصل کرنا چاہتا ہوں تو گھر والوں نے سپورٹ کیا۔ 2018 میں قرآن حفظ کیا، واپس گاوں آگیا اور ایک سال تک تدریس کا عمل معطل رہا۔

دو سال قبل یعنی 2019 ءمیں پشاور کے تہکال کے جامعہ عبداللہ بن ابن عباس میں مولانا ڈاکٹر نعمان خلیل کے ساتھ داخلہ لیا اور ابھی علم کے دوسرے درجے کا امتحان دے رہا ہوں۔

پاوں سے لکھنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں فتح الدین کا کہنا تھا کہ جب پاوں سے لکھنا شروع کیا تو پہلے بہت تکلیف ہوتی تھی لیکن پھر عادی ہوگیا۔ جب مدرسے آیا تو یہاں پر لکھنے کا کام زیادہ تھا اب بالکل کوئی تکلیف نہیں ہوتی پاوں سے لکھنے میں۔

فتح الدین نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ جب مدرسے آرہا تھا تو بعض لوگ کہتے تھے کہ مت جاو ، تمہارے لئے وقت گزارنا مشکل ہوگا، لکھنے کا کام بھی زیادہ ہے، ہاتھوں کے بغیر کس طرح اپنی ضروریات پوری کرو گے؟؟ کون خیال رکھے گا ؟؟؟وغیر ہ وغیرہ لیکن ہمت نہیں ہاری اور اپنے فیصلے پر ڈٹارہا۔ جب مدرسہ آیا تو یہاں موجود طلباء نے بڑی خدمت کی اور اب بھی خدمت کررہے ہیں یہاں تک کہ جب روٹی کھاتا ہوں تو نوالے توڑ کر مجھے دیتے ہیں۔

فتح الدین کے مطابق زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری، روزمرہ کام میں کسی قسم کی دقت محسوس نہیں کرتا ، کبھی خود میں کوئی کمی محسوس نہیں کی ہاں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اگر ہاتھ ہوتے تو میں اپنے والدین کی خدمت کرتا، اپنے اساتذہ کی خدمت کرتا اور لوگوں کی مدد کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ دینی علم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کریں گے اللہ سے دعا ہے کہ ان سے اپنے دین کا کام لے لیں۔

فتح الدین دینی علوم کے ساتھ ساتھ کھیل کھود کا بھی شوقین ہے۔ کھیلوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ کھیل تو بہت سارے پسند ہیں لیکن فٹ بال اور کرکٹ کھیلنا اچھا لگتا ہے۔ کرکٹ میں کافی اچھا سپن باولر ہے ، بیٹنگ سے زیادہ باولنگ کرنا اچھا لگتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button