صحت

ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، ذیابیطس کے مریضوں نے اپنا علاج چھوڑ دیا

جاوید محمود

چارسدہ کی رہائشی خاتون نہارہ بی بی گزشتہ پندرہ سالوں سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں، ان کے خاندان میں یہ کوئی موروثی بیماری نہیں تھی مگر اُن سمیت ان کی بہن، بھائی اس مرض سے متاثر ہوئے اور اس مرض سے خود ان کا وزن گھٹنے لگا۔

ٹی این این کے ساتھ نہارہ بی بی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ انہیں اپنے ذیابیطس کے مرض کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب انہوں نے پیشاب کیا تو اس کی طرف چیونٹیوں کی بڑی تعداد آنے لگی، ”تو مجھے لگا کہ میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے لگی ہوں۔”

خیال رہے کہ ہر سال عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 2021 سے 2023 تک عالمی ادارہ صحت کا موضوع ‘ذیابیطس کے مرض میں احتیاط تک رسائی’ ہے۔

شوگر سے متاثرہ خاتون نہارہ مزید کہتی ہیں کہ وہ اپنی غربت کی وجہ سے اپنا علاج جاری نہ رکھ سکیں جس کی وجہ سے ان کا شوگر لیول 350 سے 450 درجے تک بڑھنے لگا "اس وجہ سے میرے منہ میں آبلے پڑنے لگے، بدن میں سوجن آنے لگی، میں نے گزشتہ ایک ہفتے سے کھانا بھی بند کیا ہے اور صرف دودھ پی کر گزارہ کرتی ہوں جس کی وجہ سے میرا جسم دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔”

نو سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا شمس الرحمان نامی شخص نے بتایا کہ وہ معمول کے مطابق میٹھی چیزیں کھاتے تھے لیکن یہ ان کی موروثی بیماری ہے اور انہیں تب پتہ چلا جب ان کا وزن گھٹنا شروع ہوا۔

شمس الرحمان پیشے کے لحاظ سے قصائی ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کا روزگار چُھری سے جڑا ہوا ہے اور اکثر انہیں چُھری سے چوٹ لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا زخم جلد مندمل نہیں ہوتا۔

کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹروں سے علاج کروایا ہے مگر وہ سجھتے ہیں کہ انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا، اس مرض سے ان کی بھاؤج بھی متاثر ہوئی اور اس کی وجہ سے اس کے گردے فیل ہوئے اور وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ ان کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر نے پرہیز کے حوالے سے جو ہدایات دی ہیں اس پر مکمل طور پر عمل کرتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 460 ملین ذیابیطس کے مریض سے متاثرہ ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس مرض میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق 1980 سے 2014 تک ذیابیطس کی مریضوں میں سو فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے، 1980 میں 108 ملین (4 اعشاریہ 7 فیصد) جبکہ 2014 میں 422 ملین افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا کہ پاکستان میں اس وقت 5 کروڑ یعنی آبادی کا 4 فیصد حصہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ انسانی طرز زندگی میں تبدیلی ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چارسدہ میں میڈیکل اسپیلشٹ ڈاکٹر اشفاق اُتمانزئی کہتے ہیں کہ شوگر یا ڈائبیٹیز کا شمار دنیا کی سب سے خطرناک بیماریوں میں ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ذیابیطس کے عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو ذیابیطس سے محفوظ رکھنے، اپنی عادات و اطوار اور رہن سہن میں تبدیلی کا شعور دیا جائے۔

ڈاکٹر اشفاق کے مطابق اس مرض کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک کو ٹائپ ون اور دوسری کو ٹائپ ٹو کہا جاتا ہے، پہلی قسم میں وہ بچے شامل ہیں جن میں انسولین نہیں بنتا اور دوسری قسم میں 30 سال سے اوپر کے افراد شامل ہیں اور پاکستان میں ٹائپ ٹو درجے کے افراد سب سے زیادہ ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق کہتے کہ موٹاپا بھی اس مرض کا سبب بن سکتا ہے جس کیلئے اب ماہرین صحت نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے وزن کم کرنے کیلئے بیریٹرک سرجری کرتے ہیں جس میں لیزر یا کیمرے کے ذریعے معدہ کا حجم کم کرتے ہیں اور اس کے براہ راست اثرات شوگر میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق ایک صحتمند انسان کی شوگر کی سطح کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر کچھ کھائے پئے بغیر شوگر کا لیول 120 درجے ہو یا کھانے کے بعد 180 درجے سے زیادہ ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بندہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہے اور وہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کر سکتا ہے۔

پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ماہر ذیابیطس ڈاکٹر یاسر نے ٹی این این کو بتایا کہ جب شوگر کی بیماری قابو میں ہو تو یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں لیکن جب بے قابو ہو جائے تو اس سے مزید امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر یاسر ان علامات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس مرض کی واضح علامات یہ ہیں کہ انسان کو بار بار پیشاب آتا ہے، تھک جاتا ہے، بھوک لگتی ہے، پیاس بھی لگتی ہے اور وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب شوگر کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو انسان اندھے پن کا شکار ہو سکتا ہے، گردے متاثر ہو سکتے ہیں اور دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے ساتھ پیروں کی رگیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے پیروں پر زخم لگ جاتا ہے اور پھر یہ زخم ٹھیک نہیں ہوتا۔

کہتے ہیں کہ ان علامات کے دوران مریض کو چاہئے کہ بروقت کسی ماہر ڈاکٹر سے ذیابیطس کا ٹسٹ کرائیں اور اگر ٹسٹ مثبت ہو تو انہیں ادویات لینے چاہئیں کیونکہ ابتدائی ایام میں اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے لیکن غفلت برتنے سے اس کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

شوگر کی ادویات کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟

شوگر سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ ادویات میں 200 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ نہارہ بی بی کہتی ہیں کہ پہلے وہ ہیمولین دوائی 640 میں خریدتی تھی لیکن اب اس کی قیمت 1000 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ کہتی ہیں کہ وہ ایک بے بس خاتون ہیں اور غربت کی وجہ سے انہوں نے ادویات لینا چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذیابیطس کی مرض سے بچاؤ کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ادویات کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ متاثرہ افراد ان ادویات کو بہ آسانی حاصل کر سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button