بچے کو اپنا دودھ نا پلانا بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتا ہے ؟
نشاء عارف
‘آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک چھاتی میں درد شروع ہوا لیکن زیادہ دھیان نہیں دیا،جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا گیا،لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی تو معائنہ کے بعد کہا کہ چھاتی میں ایک گلٹی ہے’
پشاور شہر امین کالونی کی زینب نے کہا کہ کچھ ہی دنوں میں طبیعت کافی بگڑ گئی ٹیسٹ کیے جس سے پتہ چلا کہ انکو چھاتی کا کینسر ہے۔
شوکت خانم ہسپتال لاہور گئی جہاں انکو ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک چھاتی کاٹنی پڑے گی اور یہ آپریشن جلد از جلد کرنا ہوگا تاخیر کرنا اسکو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔
زینب کے ایک چھاتی کاٹی گئی ہے لیکن انکی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی اور اب بھی انکا علاج جاری ہے۔
دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے کینسر کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے اس کا مقصد خواتین میں اس مرض کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہرسال 50 ہزار خواتین بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتیں ہیں جو ایشیا میں بریسٹ کینسر کا شکار ہونے والی خواتین کی سب سے زیادہ شرح ہے جبکہ سالانہ اس بیماری کے 90 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔
دنیا بھر کے مقابلے میں ایشیا میں سب سے زیادہ چھاتی کے سرطان کی شرح زیادہ ہے اور ایشیائی ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں چھاتی کا سرطان زیادہ ہے، ہر نو میں سے ایک خاتون چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔
اس سلسلے میں پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی ماہر امراض کینسر ڈاکٹر سلمی غفار جو کنسلٹنٹ سرجن کے طور پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں کا کہنا ہے کہ چھاتی کے سرطان کی سب سے بڑی وجہ بر وقت مرض کی تشخیص کا نا ہونا ہے،اگر وقت پر تشخیص ہوجائے تو مریض بہت جلد ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2018 میں رپورٹ ہونے والے کینسر کے مجموعی کیسز کی تعداد ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ تھی جن میں چھاتی کے کیسنر کا تناسب 19 فیصد سے زیادہ تھا
چھاتی کے سرطان کی وجوہات کیا ہیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سلمی نے بتایا کہ اس کے دو عوامل ہیں جن میں کچھ تبدیل ہوسکتے ہیں اور کچھ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک خاتون کا خاتون ہونا ہی چھاتی کے سرطان کے لیے رسک ہے،کیونکہ کہ مرد کے مقابلے میں اس مرض کا خواتین میں سو گناہ زیادہ چانس ہوتا ہے۔بڑھتی عمر چھاتی کے کینسر کا سبب بنتا ہے، یہ عوامل خاتون کے اختیار میں بالکل بھی نہیں ہے اور اس میں ایک خاتون کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
نجی تنظیموں کے اشتراک سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2020 کے دوران کینسر کے سترہ لاکھ نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں 14.5 فیصد یعنی لگ بھگ 26 ہزار کیسز چھاتی کے کینسر کے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہا کہ اب وہ عوامل جو خواتین کے اپنے اختیار میں ہیں اگر کنٹرول ہوجائے تو اس مرض کے رسک کو کم کیا جاسکتا ہے جیسے کافی وقفے کے بعد بچہ پیدا کرنا،بچے کو اپنا دودھ نا پلانا،بچوں کی پیدائش میں زیادہ وقفے کے لیے ادویات کا استعمال،موٹاپا،مرغن غذائیں،سگریٹ اور شراب کا استعمال،یہ ایسے عوامل ہیں جو خواتین کے اختیار میں ہے اور بآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر سلمیٰ کے مطابق چھاتی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا درد کی صورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ دیر کرنے کی صورت میں یہ مرض لاعلاج ہوجاتاہے، اس مرض میں کوئی شرم محسوس نا کریں اور خاندان والے اپنے مریض کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اگر چھاتی کے سرطان کا وقت پر تشخیص ہو جائے تو اس مرض سے شفا ممکن ہے۔