صحت

سکولوں میں ویکسینیشن کے عمل پر والدین کے تحفظات کیا ہیں؟

 

 

خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے سکولوں میں بارہ سال سے زائد بچوں کو ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا ہے لیکن دوسری طرف بچوں کے والدین نے ویکسین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے بچوں کے لیے ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کے بارے میں حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہے اور حکومت کو ویکسین کی فکر لگی ہوئی ہے۔ دوسری جانب محکمہ صحت اور تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ایک عالمی وبا ہے اور بچوں کیلئے یقینی طور پر جان لیوا وبا ثابت ہوسکتی ہے تو اس سے بچوں کو محفوظ کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا ہے۔
ضلع سوات کے سیدو شریف بر کلی ہائی سکول کے دسویں جماعت کے طالبعلم محمد یاسین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے انکا سکول کئی ماہ تک بند رہا جس سے براہ راست منفی اثرات انکے مطالعہ پر ہوئے، چونکہ اب سکول میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا ہے تو وہ اسکے ذریعے محفوظ طریقے سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔
سکول میں بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو کورونا ویکسین لگانے والے محکمہ صحت کی خاتون اہلکار مہر سلطانہ اس وقت بچوں کو سکولوں میں ویکسین لگانے کی ڈیوٹی پر مامور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سکولوں میں دس بجے سے کورونا ویکسینیشن کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور گزشتہ پانچ دنوں کے دوران چھ سو سے زائد بچوں کو ویکسین لگائے جاچکے ہیں۔


دوسری جانب سے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویکسین لگانا نہایت بہتر عمل ہے لیکن اگر دیہی اور قبائلی اضلاع کے ہسپتالوں میں بچوں کیلئے بنیادی بیماریوں کا بندوبست بھی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
قبائلی ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ کے رہائشی سید آیاز کا کہنا ہے کہ انکے خیال میں کورونا ویکسین لگانا وبا سے بچنے کیلئے نہایت اچھا عمل ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ستر سالوں سے قبائلی اضلاع میں عوام کے بیشتر صحت کے مسائل درپیش ہیں، انکو ہسپتالوں میں ڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی لیکن معلوم نہیں کہ بنیادی صحت کے مسائل حل کرنے کی بجائے ویکسین کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔
ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عظمٰی کا کہنا ہے کہ وہ ان ویکسین سے اسلئے ڈرتی ہے کہ یہ پہلی بار بچوں کیلئے متعارف کیا گیا ہے لیکن وہ حکومت کی شکرگزار ہے کہ جس طرح دیگر بنیادی بیماریوں کیلئے ویکسین سودمند ثابت ہوئے اسی طرح کورونا ویکسین بھی بچوں کو کورونا سے محفوظ رکھیں گے۔
محکمہ صحت کی مہرسلطانہ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ پندرہ دنوں سے سکولوں میں بچوں اور بچیوں کو ویکسین لگا رہی ہے جس کی وجہ سے اب تک کوئی بھی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ بچوں کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
تحصیل باڑہ میں افغانستان کا رہائشی قدرت اللہ کا ماننا ہے کہ جہاں پر انکے بچے سکول پڑھتے ہیں وہاں اب تک کوئی بھی محکمہ صحت کی ٹیم نہیں پہنچی ہے۔ انہوں نے خود اپنے خاندان سمیت اپنے پی او آر کارڈ کے ذریعے ویکسین لگائی ہے اور اسی طرح اپنے بچوں کو بھی ویکسین لگانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
پشارو کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول قصاب خانہ کی انچارج شہلا نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کے سکول میں بھی بچیوں کو کورونا ویکسین شروع کر دی گئی ہے۔ انکے مطابق سکول میں بچوں کی مجموعی تعداد 612 ہیں اور ان میں 555 بچیاں ویکسین لگانے کی اہل تھی جن کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔


کہتی ہے کہ ہم نے حکومتی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے ہوئے بچوں کے والدین کی اجازت کے بغیر ویکسین لگائے۔ انہوں نے کہا کہ ‘کچھ بچے ویکسین کے بعد بیمار ہوگئے جس کے بعد والدین نے شکوہ کیا کہ ہم سے پوچھے بغیر آپ نے ہمارے بچوں کو ویکسین کیوں لگائی، پھر ہم نے دوسری بچیوں کو ویکسین لگوانے سے قبل انکے والدین سے اجازت لی اور اس طرح تمام بچیاں ویکسینیٹ ہوگئی ہیں’
سکول انچارج شہلا نے بتایا کہ کچھ بچوں کو ویکسینیٹ کرنے کے بعد معمولی سا بخار ہوا جس کیلئے ڈاکٹروں کے مشورے سے دوائی پلائی اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئی۔ کہتی ہے کہ ‘سب کو بخار نہیں ہوا تھا لیکن جن بچیوں کو ہوا تو ڈاکٹروں کے مطابق انکی قوت مدافعت کمزور تھی جن کو دوائی سے افاقہ ملا’۔

ضلع سوات کی محکمہ تعلیم کی ضلعی افسر فضل خالق نے ٹی این این کو ضلع بھر میں سکولوں کے بچوں کو ویکسین کے بارے میں بتایا کہ فی الحال ویکسینیشن کا عمل مڈل اور ہائی سکولوں میں جاری ہے جن کی عمر بارہ یا بارہ سال سے زائد ہو اور سب سے زیادہ بچے ہائر سیکنڈری سکولز میں ہیں۔
فضل خالق کہتے ہیں کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پورے ضلع میں 65 ہزار بچوں کی تعداد بارہ سال سے اٹھارہ سال تک ہیں جن میں اب تک چار ہزار بچوں کو کورونا ویکسین کی خوراکیں دی گئی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ بیشتر والدین نے کورونا ویکسین لگانے پر محکمہ صحت اور تعلیم کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن کچھ والدین قدامت پسند ذہنیت کی وجہ سے اپنے بچوں کو ویکسین لگانے سے انکار کرتے ہیں تاہم تعلیمی اداروں کے سربراہان  انہیں قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کو اس سلسلے میں کافی حد تک کامیابی مل چکی ہے اور بچوں کو ویکسین لگانے میں کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویکسین کی دو دو خوراکیں لگائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کے 28 ستمبر کو نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کے سربراہ اسد عمر نے اپنی ٹویٹ میں یکم ستمبر سے ملک بھر میں بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو کورونا ویکسین لگانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔
مگر این سی او سی کی جانب سے تاحال ملک بھر میں ٹارگٹڈ بچوں کی تعداد نہیں بتائی گئی جن کو ویکسین دی جائی گی اور نہ ویکسینیٹڈ بچوں کے اعداد و شمار کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اس سٹوری کے لیے خادم آفریدی، رانی عندلیب، حنا واجد اور رفیع اللہ نے معلومات فراہم کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button