صحتعوام کی آواز

”کون سا انکوائری ہو گی، جعلی سرٹیفکیٹ بنانے میں ہی عافیت سمجھی!”

رانی عندلیب

”حکومت 5 روپے کی دوا مفت تو دے نہیں سکتی لیکن ہزاروں کی کورونا ویکسین زبردستی لگوا رہی ہے دل نہیں مانتا”، یہ کہنا ہے پشاور شہر کی 50 سالہ نسرین کا۔

نسرین نے حکومت کی جانب سے کورونا ویکسینیشن کی سختی کے حوالے سے کہا کہ یہ پاکستان ہے، سب کچھ ہو سکتا ہے اس لیے پیسوں سے کورونا ویکسینشن کا جعلی سرٹیفیکیٹ بنایا ہے۔

دوسری جانب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر زبیر بھٹی جو کہ کورونا انچارج ہے کا کہنا ہے کہ حکومت مفت ویکسینیشن لگوا رہی ہے جس میں سائینو ویک، سائینو فارم اور فائزر وغیرہ شامل ہیں، جن کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں سوائے معمولی سر درد یا بخار کے۔

پشاور کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں 29 اگست 2021 تک 30 فیصد بالغ افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے اور 31 اگست 2021 تک 40 فیصد مزید لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی، 30 فیصد بالغ نوجوانوں نے کورونا ویکسین کروائی ہے جبکہ دس ملین لوگوں کو اگلے دو ماہ میں ویکسین کروائی جائے گی۔

محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پندرہ سال سے 18 سال تک تمام نوجوانوں کو ویکسینیشن کروائی جائے گی۔

این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق 12 ستمبر 2021 تک خیبر پختونخوا میں 5 ہزار 250 لوگ وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے، ایک لاکھ ستر ہزار تک کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ صحتیاب ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔

”کورونا ویکسین لگانے سے ڈر لگتا ہے لیکن ثمینہ نے بتایا کہ ویکسین لگائے بغیر بھی تین ہزار روپے میں جعلی سرٹیفیکٹ بنایا جا سکتا ہے،” مریم نے بتایا۔ ثمینہ نے مریم کا مسئلہ اس لئے حل کرایا کیونکہ ثمینہ نے بھی بغیر کورونا ویکیسین لگانے کے جعلی سرٹیفیکیٹ بنایا تھا، اب مریم کے شوہر اور تین نندوں نے بھی تین تین ہزار روپے میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کے فیک سرٹیفکیٹ بنا رکھے ہیں۔

جب مریم سے پوچھا گیا کہ وہ ویکسین کیوں نہیں لگواتیں تو انہوں نے بتایا، ”ویکسین لگانے کے بہت نقصان ہوتے ہیں، مردوں اور عورتوں میں بانجھ پن پیدا کرتی ہے، حافظہ کمزور کرتی ہے، خواتین میں ماہواری جبکہ مردوں میں مردانہ کمزوری کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، اور سنا ہے دو سال بعد انسان مر بھی جاتا ہے، اور جب پاکستان میں سر درد کی گولی فری میں نہیں ملتی تو تین چار ہزار کی ویکسینیشن عوام کو کیوں مفت میں فراہم ہو رہی ہے، اس کے پیچھے بھی بہت بڑا ہاتھ ہو گا۔”

مریم نے یہ بھی بتایا کہ شاید یہ ساری باتیں افواہیں ہوں لیکن لوگ جو کہہ رہے ہیں اور ان کو انٹرنیٹ سے، ٹی وی سے جتنی بھی آگاہی ہوئی ہے تو یہی پتہ چلا کہ تمام لوگ یہی باتیں کر رہے ہیں کہ یہ ویکسین ٹھیک نہیں اس لئے جعلی سرٹیفکیٹ بنانے میں اپنی عافیت سمجھی۔

ڈاکٹر زبیر نے مریم کی باتوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب افواہیں ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے، ”ہر ویکسین یا دوائی کا کوئی نا کوئی معمولی سائیڈایکفٹ ہوتا ہے لیکن دم، داڑھی مونچھ یا دو سال کے بعد مرنا طب کی سمجھ سے باہر کی باتیں ہیں، حکومت آپ کو فری ویکسین فراہم کر رہی ہے اور ہر سنٹر میں فری موجود ہیں، جو لوگ جعلی سرٹیفکیٹ بنا رہے ہیں تو حکومت نے ان لوگوں کے لیے سزا کا اعلان بھی کیا ہے اور جو ان میں ورکرز شامل ہیں تو ان کو نوکری سے خارج کیا جائے گا اور ان کے خلاف سخت انکوائری کی جائے گی اور اگر اس میں کوئی بندہ پکڑا جاتا ہے جو کہ گورنمنٹ ایمپلائی ہو اور اس نے فیک انٹریز اور جعلی سرٹیفکیٹ بنائے ہیں تو ان کو دو سال تک قید کیا جائے گا اور حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جن لوگوں نے جعلی سرٹیفکیٹ بنایا ان کو دو سال تک قید ہو سکتی ہے۔”

چند روز بعد مریم کی ملاقات اس کی کزن مسرت سے ہوئی تو گفت و شنید کے دوران بات ویکیسین کی چھڑ گئی، مسرت نے کہا کہ اس نے کورونا کی ویکسین لگوا لی ہے، مریم حیران ہو گئی کہ یہ تو بہت غلط کیا، اب دو سال بعد مر جاؤ گی! یہ سن کر مسرت زور سے ہنسنے لگی کہ چلو یہ جھوٹی افواہ ہی سہی مجھے دو سال جینے کی گارنٹی تو مل گئی ورنہ کس کو خبر کب کس وقت یہ زندگی ساتھ چھوڑ جائے۔

خیال رہے کہ ویکسین لگانے کی ابتدا ملک کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے ہوئی تھی، پھر اس کے بعد آرمی، ڈاکٹرز، انجینئر اور پھر استادوں کو ویکسین لگوائی گئی، سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر کون سا ملک ہو گا جو اپنے روشن مستقبل کو ختم کرے گا؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button