خیبر پختونخواصحتکورونا وائرس

غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو کورونا ویکسین لگانے کے لئے کیا طریقہ کار ہوگا؟

ریحان محمد

خیبرپختونخوا میں کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کورونا وائرس سے متاثرہوئی ہے جن کے اعدادوشمار سے متعلق ریکارڈ تو متعلقہ اداروں کے پاس موجود نہیں لیکن دوسری جانب ان مہاجرین کے ویکسینیشن کے لئے بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آ رہی۔

پاکستانی شہریوں کو قومی شناختی کارڈ اور رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پروف آف رجسٹریشن کارڈ یا نادرا کے پاس موجود دوسری دستاویزات کے ذریعے رجسٹریشن کراکے ویکسی نیشن کرا دی جاتی ہے لیکن غیر رجسٹرڈ اور بغیر سفری دستاویزات رہائش پذیر افغانیوں کو کوروناوائرس سے بچاؤ کی ویکسی نیشن بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

اس وقت پاکستان میں پندرہ لاکھ کے قریب رجسٹرڈ جبکہ اتنی ہی تعداد غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی بھی بتائی جارہی ہے جس کے باعث نہ صرف ان افغانیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں بلکہ ان کے اردگر رہائش پزیر مقامی لوگوں کے سروں پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو مفت ویکسین کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن چند مسائل کے بناء پر افغان مہاجرین کو ویکسین لگانے میں بدستورمشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق وہ افغان مہاجرین جو نادرا کیساتھ رجسٹرڈ ہیں یا ان کے ساتھ ویزہ ہے وہ اپنے موبائل سے میسج بھیج کر تصدیقی میسج آنے کے بعد کسی بھی ویکسی نیشن سنٹر سے رجوع کرکے ویکسین لگاسکتے ہیں جبکہ دوسری طرف افغانیوں کاموقف ہے کہ ان کو ہسپتالوں میں ویکسین لگانے اور نادرا کے ساتھ رجسٹریشن نہ ہونے کے وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

ویکسی نیشن سے محروم افغانیوں میں ایک af جس کے نتیجے میں اس کی زندگی کیساتھ ساتھ انکے خاندان کے دوسرے افراد کی زندگیاں بھی بدستور خطرات میں ہیں۔ بلال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے پڑوس میں بہت سے افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے ابھی تک رجسٹریشن کا طریقہ کارآسان نہ بنایا جاسکا جسکے باعث وہ اپنی رجسٹریشن کرکے کورونا ویکسین لگا سکے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 15لاکھ کے قریب رجسٹرڈافغان مہاجرین موجود ہیں لیکن پاکستانی حکام اور دوسرے اداروں کے مطابق 15لاکھ کے قریب غیر رجسٹرڈ افغان بھی مقیم ہیں جن میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کے 43 بستیوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے قومی جرگہ کے سربراہ عصمت اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کیلئے ویکسین لگوانے کا اعلان کیا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس حوالے سے کسی قسم کی آگاہی نہیں کہ ان کیلئے بھی مفت ویکسین کی سہولیات دی جاتی ہیں۔

انہیں بھی میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ افغان باشندوں کو بھی نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے احکامات کی روشنی میں وزارت صحت کی جانب سے کوروناسے بچاؤ کی ویکسین لگائی جارہی ہیں لیکن زیادہ تر افغان مہاجرین کے پاس میڈیا تک رسائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ بدستور کوروناویکسی نیشن سے محروم ہیں۔

یو این ایچ سی آر یا پاکستانی حکام کے جانب سے ابھی تک ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بھی لوگوں میں ویکسین لگانے کے آگاہی میں کمی نظر آرہی ہیں۔

عصمت اللہ کے مطابق جو افغان باشندے باہر ملکوں سے آئے ہوئے ہیں ان کے کیلئے الگ ویکسین لگانی پڑتی ہے لیکن یہ خاص ویکسین پاکستانیوں کو ملنا مشکل ہیں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی نے بتایاکہ تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو کورونا ویکسین لگائی جارہی ہیں۔ ویکسی نیشن کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو ویکسین لگانے کیلئے بھی پاکستانی حکام کے ساتھ بات ہورہی ہیں اور جلد ان تمام افراد کو ویکسین لگائی جائے گی جو پاکستان میں مقیم ہیں۔

ویکسی نیشن ہی آپ کوکورونا وائرس سے بچاسکتی ہے پاکستان میں اب تک تقریباً20فیصد تک لوگوں نے کورونا ویکسین کی پہلی خوراک لی ہیں جس میں 8فیصد لوگوں کو دوسری خوراک بھی دیدی گئی ہے جس میں افغان مہاجرین ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

افغان مہاجرین میں جنہوں نے کورونا ویکسین کاکورس مکمل کیا ہے ان میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جنہیں باہر ممالک جانا تھا۔

پشاور کا بورڈ بازار منی کابل کہلاتا ہے جہاں پر دوکاندار زیادہ تر افغانی ہے بلکہ خریدار بھی زیادہ تر مہاجرین ہی آتے ہیں۔ بورڈ بازا کے أفغان  دکاندار سید اکبر نے بتایا کہ کورونا نے جہاں بڑے بڑے تاجروں اورکاروباری افراد کو متاثر کیا ہے وہاں پر چھوٹے دکاندار بھی اس کے منفی اثرات سے بچ نہیں سکے ہیں۔

انہوں نے بتایاکہ کورونا کے باعث ان کے کاروبار کوبھی بہت بڑا نقصان پہنچا ہے اس نے خواہش کا اظہارکیا کہ اللہ کرے کوروناوائرس جلد ہی اس دنیا سے ختم ہوجائے اور پاکستان سمیت تمام ممالک اس پر قابو پا لیں تاکہ ان کی معاشی صورتحال ایک مرتبہ پھر بہترہوسکے۔  لیکن دوسرے افغانیوں کی طرح سید اکبر بھی کوروناوائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانے سے لاعلم تھا۔ سید اکبر کا کہنا تھاکہ وہ تو سمجھتے تھے کہ کورونا ویکسین صرف پاکستانی شناختی کارڈ پر ہی لگائی جاتی ہے اس وجہ سے انہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگائی۔

پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی نصف آبادی خیبر پختونخوا میں آباد ہیں جو کل 58فیصد بنتی ہیں جن کا زیادہ تر کاروبار پشاور میں ہے۔

بورڈ بازار میں افغان پھل فروش ذکریا نے بتایا کہ کورونا ویکسین کے بارے غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے لوگ ویکسین نہیں لگاتے جبکہ افغان مہاجرین کو اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں اس وجہ سے کسی بھی افغان مہاجر نے اب تک ویکسین نہیں لگائی لیکن وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ ویکسین لگائے تاکہ ان کے کاروبار دوبارہ اسی طرح بحال ہوجائے جو اس وبا سے قبل تھا۔

پشاور میں مقیم افغان مہاجر زین اللہ کے گھر والوں نے کورونا کی پہلی ویکسین لگا لی ہے لیکن ویکسین کے بعد گھر والوں کو بخار آنے کے بعد اب دوسری ویکسین سے ڈررہے ہیں کہ کہی اس سے کوئی پیچیدگی پیدانہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں ویکسین کے فوائد کے بارے میں  بہت کم معلومات ہیں جس کی وجہ سے افغان مہاجرین ویکسین نہیں لگاتے جبکہ انہوں نے خود کورنا سے متاثرہ افراد دیکھے ہیں اور یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کہی اس کے خاندان والے اس سے متاثر نہ ہوجائے۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو کورنا ویکسین لگانے میں مشکلات یا آگاہی نہ ہونے کے باعث  مقامی لوگوں کی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق کورنا سے متاثرایک فرد پورے علاقے کو متاثر کرسکتا ہے۔

اس حوالے سے میڈیکل پرنسپل آفسرتحصیل ہیڈ کوارٹرہسپتال صدہ ضلع کرم ڈاکٹر عنایت الرحمان کا کہنا ہے کہ دنیا میں زیادہ تر ملکوں میں اب کورونا کے کیسز ختم ہورہے ہیں۔ لیکن انہوں نے پہلے کورونا کیلئے مرتب ایس او پیز پر عملدارآمد کیا اور اب ویکسین لگوارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کونے کونے میں ویکسی نیشن سنٹرز قائم کئے گئے ہیں لیکن اب تک اتنے لوگوں نے ویکسین نہیں لگائی جتنو کو لگانا چاہئے تھا۔ جبکہ افغان مہاجرین تو اس میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں ہر جگہ پر افغان مہاجرین آباد ہیں جن کو بھی دوسروں کی طرح ویکسین لگانے کی ضرورت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کو ویکسین وقت پر نہ لگائی گئی تو ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے لیکن پاکستانی حکام کوشش کررہے ہیں کہ ان کو بھی جلد ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button