صحتعوام کی آواز

دہشت گردی سے متاثرہ تحصیل باڑہ میں ذہنی امراض میں اضافہ ہونے لگا

محمد عالم آفریدی

ضلع خیبر باڑہ میں جب دہشتگردی شروع ہوئی تو بہت سے لوگوں کے پیارے اس میں شہید ہوگئے اور باقی لوگ جنہوں نے یہ مناظر اخباروں اور  ٹی وی پر دیکھے‘ ان میں سے بہت لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہو گئے، جنہوں نے یہ واقعے خود دیکھے ان کو ڈپریشن، انزائٹی اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈِس آرڈر ہو گیا۔

باڑہ میں ایسا کوئی گھر نہیں جس کا کوئی نقصان نہ ہوا ہو دہشت گردی میں، دہشت گردی نے ہر شخص کی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے لیکن خواتین اور بچے اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ باڑہ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈوگرہ میں تعینات سائیکاٹرک کا کہنا ہے کہ باڑہ میں دہشت گردی کی وجہ سے زیادہ تر خواتین ڈپریشن اور ذہنی بیماری میں مبتلا ہے لیکن یہاں پر سائیکاٹرک ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے اکثر لوگ علاج سے رہ جاتے ہیں کیونکہ مریض زیادہ ہے اور ڈاکٹرز کم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مردوں کی بجائے عورتوں میں ذہنی کمزی زیادہ پائی جاتی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے گھریلوں مسائل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے دوران کسی نے بیٹا تو کسی نے بھائی اور کسی نے شوہر کو کھویا ہے۔ تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والی گل روح بی بی بھی ان خواتین میں سے ایک ہے جو ذہنی بیماری کا شکار ہوچکی ہے۔

وہ بظاہر بالکل ٹھیک تھی‘ خوبصورت، خوش لباس، ہنس مکھ لیکن اچانک اس کی طبیعت خراب رہنے لگ گئی، اداسی اور مایوسی نے اس کو جکڑ لیا، کھانا کھانے کا دل نہیں کرتا تھا، کسی سے ملنے سے جی گھبراتا تھا، سو باہر آنا جانا بھی کم کر دیا۔ خودکشی کے خیالات آنے لگے، ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے بتایا کہ یہ ڈپریشن ہے تو وہ سوچ میں پڑ گئی کہ میری زندگی میں تو سب ٹھیک ہے‘ پھر مجھے ڈپریشن کیوں ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا: جیسے نزلہ‘ زکام‘ کورونا کسی بھی انسان کو ہو سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن اور نفسیاتی امراض بھی کسی بھی انسان کو اپنی لیپٹ میں لے سکتے ہیں۔ خیر علاج شروع ہوا، ادویات اور تھراپی کے باعث آج وہ بالکل ٹھیک ہے۔

خیبر یونین کے جنرل سیکرٹری زاھداللہ آفریدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے آواز اٹھائی ہے کہ پاکستان اور خاص کر قبائلی علاقوں میں طویل عرصہ سے دہشت گردی دیکھی ہے‘ لوگوں نے اپنے پیارے اس جنگ میں کھوئے ہیں، اس لئے ذہنی اور نفسیاتی صحت کی بحالی کے لئے ہمیں ایسے مراکز کی ضرورت ہے جہاں زیادہ رش نہ ہو اور علاج بھی مناسب دام میں میسر ہو اور ڈاکٹرز پوری توجہ سے مریض کی بات سن سکیں۔

اگر ایک دہشت گردی نے لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں تو دوسری جانب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات نے بھی لوگوں اور بچوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
میں جب انٹرویو کے لئے ڈوگرہ ہسپتال سائیکاٹرک کے پاس گیا تو وہاں پر ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی تھی، میں نے اس کا انٹرویو لینا تھا تو میں نے اپنے ساتھی کو دور کھڑا ہونے کو کہا تاکہ مریضوں کی پرائیویسی میں خلل نہ آئے۔ اس خاتون کا بچہ بہت پیارا تھا لیکن بہت خوفزدہ تھا اور وہ خاتون بار بار اپنے آنسو چادر سے صاف کر رہی تھی۔ میں نے بیگ سے ٹشو نکالا‘ اس کو دیا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے‘ سب خیریت ہے؟ وہ مزید رونے لگ گئی‘ میں نے اسے پانی دیا اور کہا کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ وہ کہنے لگی کہ بیمار میرا بیٹا ہے وہ بچہ بہت گول مٹول اور پیارا تھا لیکن آنکھیں اداس اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے اور وہ بہت بے چین اور خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔ اس کی والدہ نے جو کچھ مجھے بتایا‘ وہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میرے بھی آنسو بہنے لگے۔ ایک طرف اس بچے کے باپ کو دہشتگردی کے دوران گھر کے سامنے کسی نے گولی ماری تھی تو دوسری طرف اس بچے کو اس کے چچا نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جب یہ بات ماں کو پتا چلی اور اس نے سسرال کے سامنے تذکرہ کیا تو کہا گیا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا جائے گا۔ اس خاتون نے کہا کہ وہ جب بھی میکے آتی ہے‘ تب اپنے بچے کو علاج کیلئے لے کر آتی ہے۔ بعدازاں اس بچے کو دورے پڑنے لگ گئے‘ وہ سکول بھی نہیں جاتا تھا اور ڈر سے بستر بھی گیلا کر دیتا تھا۔ وہ خاتون چلی گئی تو میں سوچنے لگ گیا کہ یہ بچہ دوائی یا تھراپی سے کیسے ٹھیک ہوگا‘ ایک طرف باپ جیسی عظیم ہستی اس کے سر پر نہیں تو دوسری طرف ہر روز جب بھی اپنے چچا کو دیکھے گا تو اسی تکلیف میں چلا جائے گا، کیا پتا آگے بھی اس بچے کیلئے خطرہ منڈلاتا رہے۔

ہمارے ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اس کا تدارک بہت ضروری ہے، اس کے بچوں پر کتنے بھیانک اثرات ہوتے ہیں‘ یہ معاملہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔

سائیکاٹرک کے مطابق اگر بچے خوف کا شکار ہو جائیں تو ان کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے‘ ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ مختلف فوبیاز کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جو عام نفسیاتی بیماریاں پائی جاتی ہیں‘ ان میں ڈپریشن، او سی ڈی، انزائٹی، پینک اٹیک، بائی پولر، پی ٹی ایس ڈی، سیلف ہارم، شیزو فرینیا، بار بار خود کشی کی کوشش کرنا، کھانے پینے کا ڈس آرڈر، ایسی چیزیں نظر آنا جن کا وجود نہ ہو اور موڈ ڈِس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کرایا جائے تو نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے‘ اس لئے ان کا فوری علاج بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ جن بھوت کا سایہ ہوگیا‘ یہ غلط روش ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کا علاج بھی بالکل ویسے ہوگا جیسے‘ دیگر امراض مثلاً بخار وغیرہ کا ہوتا ہے؛ دوائی‘ ہمدردی‘ بات چیت اور دیکھ بھال سے۔ بہت سے ڈاکٹرز نے اپنے کلینکس پر ادویات کے ساتھ ایکسرسائز انسٹرکٹرز، حجامہ ماہرین اور دینی معلم بھی بٹھا رکھے ہیں تاکہ دوائی کے ساتھ دیگر طریقۂ علاج سے بھی مریض کو جلد ٹھیک کیا جا سکے۔ نفسیاتی علاج کا اثر چند ماہ میں نظر آتا ہے‘ اس لئے ابتدا میں علاج سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ادویات اور کونسلنگ دھیرے دھیرے اثر کرتی ہیں،  اس کے ساتھ مریض کو اس بات کا یقین دلائیں کہ وہ پاگل نہیں ہے‘ یہ ایک عارضہ ہے جو کچھ عرصے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں‘ ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا علاج نام نہاد عاملوں اور پیروں کے پاس نہیں‘ ڈاکٹرز کے پاس ہے۔

معاشرہ اکثر جن جرائم پر پردہ ڈالتا ہے‘ ان کی وجہ سے بھی بہت سی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ انسانی نفسیات میں تبدیلیوں کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں‘ جن میں ماحول، واقعات، حادثات اور طبی وجوہات کارفرما ہوتے ہیں۔ بچپن‘ بلوغت اور بڑھاپے میں رونما ہونی والی معاشرتی اور جسمانی تبدیلیاں براہ راست انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر بہت اتار چڑھائو آتے ہیں، اس دوران والدین اور اساتذہ کو ان کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اگر ان کو مناسب رہنمائی نہیں دی جائے گی تو بیمار بھی ہو سکتے ہیں اور بری عادات کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو اس کے لئے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں ہے لیکن اس کی مختلف وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مثلا کسی بھی سانحہ کا شکار ہونا یا کوئی خطرناک قسم کا کوئی صدمہ پہنچنا کسی تشدد کا شکار ہونا کسی عزیز واقارب کی وفات ,علاقے میں جنگ کا ہونا ,کسی وباء کا پھیلنا ,کسی مہلک  (جسمانی) بیماری کا شکار ہونا غربت، نشے کا استعمال۔

ذہنی بیماری کسی بھی انسان کو کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے، اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے احساسات کے بارے میں بات کریں کیونکہ بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، خود کو وقت دیں ,ورزش کو اپنی روٹین کا حصہ بنائے اگر کبھی آپکو لگے کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہے تو ماہرسے رابطہ کرنے میں ججھک محسوس نہ کریں جو چیزیں آپ کو خوش رکھتی ہیں ان میں خود کو مصروف رکھیں.

نفسیات کے عمومی طور پر دو طرح کے ڈاکٹرز ہوتے ہیں؛ ایک سائیکاٹرک، دوسرا سائیکالوجسٹ۔ پہلا دوائیوں سے علاج کرتا ہے‘ دوسرا بات چیت سے مریض کے خوف اور خدشات دور کرتا ہے۔ اگر آپ کسی شخص میں ایسی علامات دیکھیں کہ وہ اچانک بالکل خاموش ہوگیا ہے‘ زیادہ باہر نہیں جاتا، صفائی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا، گھر اور باہر کے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے بات بات پر روتا ہے، خود کو ناکارہ سمجھتا ہے اور مرنے کی باتیں کرتا رہتا ہے تو اسے تسلی دیں اور فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں، نیز اس کی بات سنیں‘ اس کو رونے دیں تاکہ دل کا غبار نکل جائے۔ یاد رکھیں! بات چیت اور توجہ سے آپ انسانی جان بچا سکتے ہیں، اس لئے ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کو اکیلا مت چھوڑیں۔ اگر آپ نفسیاتی بیماریوں سے لڑنا چاہتے ہیں تو ورزش کریں، پان، سگریٹ، تمباکو وغیرہ سے دور رہیں، زیادہ وقت ٹی وی ‘ موبائل کے سامنے یا بستر پر نہ گزاریں، ہفتے میں پانچ بار چہل قدمی کریں۔ اپنی ادویات وقت پر لیں، متوازن خوارک کھائیں، مکمل نیند لیں، اپنے گھر والوں اور دوستوں سے رابطے میں رہیں، باغبانی کریں، اچھی کتابیں پڑھیں، دوستوں کو وڈیو کالز کریں، ان کے ساتھ بات چیت کریں۔ جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ نماز ادا کریں اور قرآن پاک پڑھیں، تلاوت بھی ضرور سنیں‘ خاص طور پر سورہ بقرہ، سورہ یٰسین اور سورہ رحمن‘ یہ ڈپریشن کو دور کرتی ہیں۔ کسی بھی شخص کو پاگل کہنے یا اس کی تضحیک سے گریز کریں۔ یاد رکھیں! ذہنی بیماریوں میں جسمانی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں‘ جیسے معدے میں درد، گیس، ڈکار، سانس میں تکلیف، خوارک کی نالی میں جلن اور جسم میں درد وغیرہ، ایسا مریض جلد تھک جاتا ہے، اس کو سکون اور آرام فراہم کریں۔ ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کریں، گھر کا ماحول اچھا رکھیں، اس سے بھی ذہنی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے، حکومت کو نئے سائیکاٹرک ہائر کرنے چاہئیں، نیز ماہر نفسیات بھی بھرتی کئے جائیں اور مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن‘ جہاں لوگ رازداری سے اپنے مسائل بتا سکیں‘ کا اجرا کرنا چاہیے، بیس کروڑ عوام کیلئے چند سو ڈاکٹرز ناکافی ہیں۔ ضروری ہے کہ نفسیات کے شعبے پر کام کیا جائے اور نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button