جھوٹی خبریں، بلند آواز میں بولنا، کیا یہی ہے اصلی صحافت؟

ناہید جہانگیر
گزشتہ ماہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ میڈیا اخلاقیات اور سچائی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صرف ریٹنگ حاصل کرنا، جنگی جنون کو ہوا دینا اور عوامی جذبات کو بھڑکانا تھا۔
یاد رہے کہ 22 اپریل کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں حملہ ہوا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا اور 7 مئی کو پاکستان پر حملے کا دعویٰ بھی کر دیا۔ بعدازاں "آپریشن سندور” کے نام پر بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تین دن بعد امریکہ کی مداخلت پر دونوں ممالک نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
لیکن اس دوران بھارتی میڈیا نے جس شدت سے جھوٹ پر مبنی رپورٹس نشر کیں، ان کا مذاق نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت میں بھی اُڑایا گیا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی جرنلزم ٹرینر بشریٰ اقبال حسین کے مطابق، صحافت کا اولین اصول سچ اور غیر جانبداری ہے۔ وہ کہتی ہیں، "صحافی کو اپنی ذات، تعصب اور نفرت کو خبر سے الگ رکھنا چاہیئے۔ خبر میں صرف حقائق، تصدیق شدہ اعداد و شمار اور غیرجانبداری ہونی چاہیئے۔”
ان کے مطابق بدقسمتی سے پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا نے ان تمام اصولوں کو پامال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ، "بھارتی میڈیا ہاؤسز نے جان بوجھ کر جنگی سنسنی کو بڑھا کر اپنی ریٹنگ اور کلکس بڑھانے کی کوشش کی۔ ایسی شہ سرخیاں، ایسی زبان، ایسا لاؤڈ انداز کہ ان کا مقصد صرف اشتعال انگیزی تھا۔”
بشریٰ مزید بتاتی ہیں کہ اس جھوٹ کے پیچھے میڈیا اداروں کے ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، "فیک نیوز کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے جس کے خلاف جنگ ہونی چاہیئے۔ میڈیا پلیٹ فارمز کو حکومت کا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔”
بھارتی میڈیا کی سنسنی خیزی اور تفریحی انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر بخت زمان کا کہنا تھا کہ، "بھارت کی فلم انڈسٹری پوری دنیا میں مقبول ہے، اور ان کا نیوز میڈیا بھی اسی انٹرٹینمنٹ اپروچ کا شکار ہے۔ ان کے نیوز رومز میں سنجیدگی سے زیادہ ڈرامائی انداز اپنایا جاتا ہے، جس سے حقائق دب جاتے ہیں۔”
بخت زمان مزید کہتے ہیں کہ، "پاکستانی میڈیا عمومی طور پر سنجیدہ رپورٹنگ کرتا ہے، جبکہ بھارتی میڈیا مودی حکومت کے زیرِ اثر انتہا پسندانہ رجحانات دکھاتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف داخلی اقلیتوں بلکہ بین الاقوامی تنازعات میں بھی جھلکتا ہے۔”
فیک نیوز کی تاریخی مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے سینئر صحافی ارشد یوسفزئی بتاتے ہیں کہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کیا اور نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا، جو درحقیقت بالاکوٹ کے ایک ویران جنگل میں ہوا تھا۔
ارشد کے مطابق، "2021 میں ایک بار پھر بھارت نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کا ایف 16 طیارہ گرایا ہے۔ بعد میں امریکی حکومت کی رپورٹ نے ثابت کیا کہ تمام ایف 16 طیارے پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ اس سے بھارتی میڈیا کا جھوٹ ایک بار پھر بے نقاب ہوا۔”
وہ مزید کہتے ہیں، "بھارتی میڈیا پر حکومت اور سیکیورٹی فورسز کا دباؤ واضح ہے۔ بیشتر صحافی اب آزادانہ رپورٹنگ نہیں کر سکتے۔ بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد میڈیا کو مخصوص بیانیہ پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔”
جھوٹی خبروں کا سب سے بڑا نقصان عام عوام کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ بشریٰ اقبال کہتی ہیں، "فیک نیوز سے ذہن سازی ہوتی ہے، عوام کو جھوٹ پر یقین آنے لگتا ہے، اور جب سچ سامنے آتا ہے تو میڈیا کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ، "جنگی حالات میں میڈیا اداروں پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سچ بولیں، لیکن جب وہ فیک نیوز، پروپیگنڈا، اور تعصب سے کام لیتے ہیں تو امن کو موقع نہیں ملتا۔”
ایسے صحافی جو لاؤڈ ہو کر پاکستان کے خلاف بولتے ہیں، ان کے بارے میں بھارتی عوام کا بھی یہ تاثر ہے کہ وہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ بشریٰ کے مطابق، "ایسے رپورٹرز کی فالوونگ محدود ہوتی ہے اور باشعور طبقہ ان پر اعتماد نہیں کرتا۔”
یہ صورتحال صرف ایک ملک کی نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ دو ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی میں میڈیا کا غیرذمہ دارانہ کردار کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔ فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت کو سنجیدگی، غیر جانبداری اور سچائی کی راہ پر واپس لایا جائے، تاکہ عوام کو درست معلومات مل سکیں اور جنگ کے بجائے امن کو موقع دیا جا سکے۔