عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

صحافت یا استحصال؟ ضم اضلاع کے نمائندے بغیر تنخواہ، ذاتی خرچ پر رپورٹنگ کرنے پر مجبور

مصباح الدین اتمانی

"جب یونیورسٹی سے فارغ طلبہ ہم سے صحافت کے عملی میدان میں آنے کے حوالے سے پوچھتے ہیں تو ہم انہیں بتاتے ہے کہ اگر آپ معاشی طور پر مضبوط ہے اور آمدن کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے تو آپ بے شک صحافت کرے ورنہ نہیں” یہ کہنا ہے باجوڑ پریس کلب کے ممبر احسان اللہ کا جو پچھلی دو دہائیوں سے مختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں۔

عملی صحافت ویسے بھی جان جوکھوں والا کام ہے تاہم جب صحافت میں نمائندگی بالخصوص ضم اضلاع سے کارسپانڈنس کی بات آئے تو معاملہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے کہ ان صحافیوں کو نہ تو ماہانہ اجرت دی جاتی ہے نا یومیہ معاوضہ بلکہ الٹا ان صحافیوں سے اشتہارات وغیرہ کی ڈیمانڈ بھی کی جاتی ہے۔

باجوڑ ایک سرحدی علاقہ ہے جو پاکستان کے قبائلی خطے میں واقع ہے۔ اس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، جہاں سرحد کے اُس پار افغان صوبہ کنڑ (Kunar) واقع ہے۔ باجوڑ کا شمار ایک اہم جغرافیائی خطے میں ہوتا ہے، جو طویل عرصے سے شدت پسندی اور عسکری سرگرمیوں کی زد میں رہا ہے۔ اس خطے نے نہ صرف سیکیورٹی کے کئی چیلنجز کا سامنا کیا ہے بلکہ یہاں کی سماجی و معاشی ترقی بھی ان حالات سے متاثر ہوئی ہے۔

معاوضہ کی بجائے الٹا صحافیوں سے اشتہارات مانگے جاتے ہیں!

44 سالہ احسان اللہ کا تعلق باجوڑ کی تحصیل خار کے ایک چھوٹے قصبے حاجی لونگ سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا اور حال ہی میں وہ نیوز ون کے ساتھ بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ احسان اللہ کا کہنا ہے کہ ہمیں نہ تو الیکٹرانک میڈیا اور نہ ہی پرنٹ میڈیا معاوضہ دیتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ہم سے اشتہارات اور رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں 90 فیصد صحافی صحافت کے ساتھ ساتھ مختلف کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ باجوڑ پریس کلب کے اکثر اراکین گاڑیوں کی خرید و فروخت اور جائیداد کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ "میں خود غیر کسٹم شدہ گاڑیوں کی تجارت کرتا ہوں، اور اسی آمدن سے گھریلو اخراجات پورے کر لیتا ہوں”، احسان اللہ نے بتایا۔

انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں ملک کے دوسرے اضلاع کی نسبت صحافت زیادہ مشکل اور کٹھن کام ہے۔ "یہاں ہم ہر روز پریس کلب جاتے ہیں، سٹوریز اور رپورٹ بنانے کے لیے دور دراز علاقوں میں جانا ہوتا ہے، یہ کام  وسائل کے بغیر آسان نہیں لیکن ہم جان پر کھیل کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں”

آپ صحافی نہیں، آپ تو کاروبار کرتے ہیں!

احسان اللہ نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان تمام تر مشکلات کے باوجود جب ہم خبر لگا دیتے ہیں تو لوگ پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ آپ صحافی نہیں آپ تو کاروبار کرتے ہیں، لیکن انہیں ہماری مشکلات کا اندازہ نہیں، معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے ہم مجبوری طور پر صحافت کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار کرنا پڑتا ہیں۔ اگر ہمیں کچھ معاوضہ ملتا تو ہم پیشہ ورانہ اور معیاری صحافت کرتے۔

احسان اللہ کا کہنا ہے کہ ہم بین الاقوامی معیار کی رپورٹنگ کر سکتے ہے لیکن وسائل نہیں ہے۔  وہ کہتے ہیں "میرے پاس صرف ایک موبائل ہے جس میں، میں اخبار کے لیے خبر بھی لکھتا ہوں، ای میلز بھی لکھتا اور بھیجتا ہوں، اس پر میں ویڈیو رپورٹس اور تصاویر بھی بناتا ہوں، اسی پر ایڈیٹنگ بھی کرتا ہوں”

انہوں نے کہا کہ بلا معاوضہ کام کرنا ہماری مجبوری ہے، ہم اگر انکار کرتے ہے تو وہ ہماری جگہ کسی اور کو لے لیتے ہے، ادارں کی خبر سے زیادہ توجہ اشتہارات پر ہوتی ہے، یہاں قابلیت ہے لیکن معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے کام اعلی معیار کا نہیں ہوتا اور زیادہ تر نوجوان اس فیلڈ کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

باجوڑ میں کتنے صحافی فیلڈ میں کام کررہے ہیں؟

پریس کلب کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق باجوڑ میں رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد 45 ہے جبکہ کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

باجوڑ میں مالی مشکلات کی وجہ سے صحافت چھوڑنے والوں میں نوجوان صحافی سفیر احمد بھی شامل ہے، جنہوں نے 2019 میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان سے صحافت کی ڈگر حاصل حاصل کی۔

انہوں نے بتایا "میں نے باجوڑ میں 5 سال بطور رپورٹر کام کیا لیکن مجھے ایک روپیہ بھی نہیں ملا، سفیر احمد کے مطابق وہ دو بچوں کا باپ ہے، بجائے یہ کہ وہ اپنے خاندان کو معاشی سپورٹ دیتا وہ خود بھی ان پر منحصر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافت کے ساتھ بچپن سے شوق تھا لیکن باجوڑ میں عملی صحافت کر کے دیکھ لیا کہ نہ تو صحافیوں کو معاشی اور نہ جسمانی تحفظ حاصل ہے، یہاں حقیقی رپورٹنگ کرنے پر گھر والوں کو دھمکیاں ملتی ہے، ان مشکلات کے باوجود زیادہ تر ادارے قبائلی صحافیوں کو کام کا معاوضہ نہیں دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ باجوڑ میں صحافی مجبور ہو کر جانبدارانہ رپورٹنگ کرتے ہیں، اس لیے میں نے باجوڑ میں صحافت کرنا چھوڑ دیا اور اسلام آباد میں مارکیٹنگ ایجنسی کے ساتھ کام کرتا ہوں۔

"پی ٹی وی نے 8 مہینوں کے کام کا 5000 ہزار روپے کا صرف ایک چیک بھیجا”

ضم اضلاع میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور انہیں ملنے والے معاوضے کے حوالے سے جب ہم باجوڑ پریس کلب کے صدر محمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں صحافیوں نے نامناسب حالات میں مختلف اداروں کے لیے کام کیا لیکن انہیں معاوضہ نہیں دیا جاتا اس وجہ سے زیادہ تر صحافی ادارے بدلتے رہتے ہیں۔

پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک محمد سلیم کی عمر 45 سال ہے۔ حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں نے دنیا نیوز سمیت پاکستان کے تمام بڑے چینلز کے لیے کام کیا ہے لیکن انہوں نے کبھی معاوضہ نہیں دیا ہے حالانکہ یہی ادارے باجوڑ کے ساتھ ملحقہ ضلع دیر میں صحافیوں کو ادائیگیاں کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مایوس ہو کر اب ہم بھی اپنی مرضی سے رپورٹنگ کرتے ہیں، جب ہمارے پاس وقت ہوتا ہے یا ہمارا موڈ ہوتا ہے تو جاکر سٹوریز کو رپورٹ کرتے ہے ورنہ چھوڑ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پی ٹی وی نے 8 مہینوں کے کام کا 5000 ہزار روپے کا صرف ایک چیک بھیجا ہے، محمد سلیم نے بتایا کہ سابقہ فردوس عاشق اعوان سے شکایت کی تھی،  ہمیں اب کوئی توقع نہیں ہے کہ قبائلی صحافیوں کو معاوضہ ملے گا۔

قبائلی اضلاع میں کام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے یہاں، صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے انہیں دھمکیاں ملتی ہے اور اغوا بھی کیا جاتا ہے۔ صحافی محمد سلیم کو بھی دو بار اغوا کیا گیا جہاں انکو جان سے مارنے کا کہا گیا لیکن پھر جرگے کی مداخلت سے انکو چھوڑا گیا۔ جب یہ صحافی انسانی حقوق کے مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں تو حکومتی اداروں کی جانب سے ان پر پریشر ہوتا ہے۔

"صحافت میں پیسہ نہیں”

باجوڑ پریس کلب کے صدر محمد سلیم نے بتایا کہ میرا بڑا بھائی پیشہ ور صحافی تھا لیکن وہ آخر میں کم ادائیگی کی وجہ سے ذہنی مریض بن گیا، اب میں یہ جان چکا ہوں کہ صحافت میں پیسہ نہیں یا تو لوگ شوق سے کرتے ہے یا پھر خدمت اور شہرت کے لیے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر قبائلی اضلاع میں صحافیوں کو کام کا معاوضہ ملتا تو آج یہاں صحافت کا معیار ہی کچھ اور ہوتا۔ مفت کام کی وجہ سے  یہاں صحافی رپورٹنگ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے،  سلیم کے مطابق باجوڑ پریس کلب کے 98 فیصد ممبران مفت کام کرتے ہے۔

محمد سلیم نے بتایا کہ صحافتی تنظیموں اور اداروں سے میں مایوس ہوں، انہوں نے کبھی بھی قبائلی صحافیوں کے لیے موثر آواز نہیں اٹھایا ہے۔

ویج بورڈ پر عمل درآمد نہیں ہوتا!

محمد فہیم نے مشرق اخبار کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کیا ہے اور آج کل وہ ٹی این این اردو اور انگلش کے لیے بطور مدیر کام کرتے ہیں، انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافی کیا، ہر ضلع سے اخبار، ٹی وی یا ریڈیو کی نمائندگی کرنے والے صحافیوں کو اجرت یا تنخواہ نہیں دی جاتی۔ چند نامی گرامی صحافیوں کے علاوہ تقریباً تمام اضلاع سے نمائندگی کرنے والے صحافی مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بھی ناقص و غیر معیاری ہوتی ہیں۔ تاہم اس ڈیجیٹل دور میں اگر ان صحافیوں کو تربیت و رہنمائی فراہم کی جائے تو بڑی حد تک یہ اپنی مالی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر کاشف الدین نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کے صحافی 90 فیصد سے زیادہ واقعی مفت میں کام کرتے ہے، یہ صرف قبائلی اضلاع کا مسئلہ نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں کام معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔

انہوں نے کہا شروع شروع میں میڈیا آرگنائزیشن اور پرنٹ میڈیا اعزازی نمائندگان کو کہتے کہ ہمیں ضرورت ہے، زیادہ تر نوجوان ذوق اور صلاحیت کیوجہ سے ان اداروں کے ساتھ منسلک ہو جاتے تھے، لیکن اس میں بھی یہ تھا کہ ان صحافیوں کی رپورٹنگ پر جو خرچ ہوتا تھا اس کی ادائیگی ہوتی تھی۔

ایک وقت ایسا ایا تھا کہ ان سے سکیورٹی کے نام پر بھی پیسے لیے جاتے اور وہ ان کو واپس نہیں کیے جاتے، کچھ ادارے ایسے بھی ہے جو ان سے لازمی اشتہارات مانگتے ہیں، ان کا ایک ہدف ہوتا ہے اور قومی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں۔ اگر اس ٹارگٹ کو کوئی نہیں پورا کر پاتا تو ان کی نمائندگی ختم کی جاتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ذمہ دار حکومت وقت ہے کیونکہ حکومت نے ان صحافیوں کے لیے ایک ویج بورڈ اعلان کیا ہے لیکن اس پر عمل دارمد نہیں ہو رہا ، خیبرپختونخوا میں صحافیوں کی تنخواہیں ویج بورڈ کے مطابق ہے، نیا ویج ایوارڈ بھی ابھی اعلان نہیں ہوا۔

ویج بورڈ کیا ہے؟

یہ وہ ادارہ ہے جو حکومت سپریم کورٹ کے ایک جج کے سربراہی میں بناتا ہے، اس میں اخبار کے مالکان اور کارکنان کے نمائندے یوتے ہیں۔ وہ ملکی حالات، مہنگائی اور شہریوں کی تنخواہوں کا جائزہ لیتا ہے، اس میں پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے صحافی بھی شامل ہے ان کی تنخواہوں کا تعین کرتے ہے اور یہ حکومت کی منظوری سے ہوتا ہے اور وہ پھر اعلان کرتا ہے کہ کارکن صحافی کی کم از کم یہ تنخواہ ہونا ضروری ہے، اب تک اس ویج بورڈ نے اٹھ ویج ایوارڈز کا اعلان کیا ہے لیکن اب تک اخبار کے مالکان اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں، تنخواہوں کی جو شرح یہ اعلان کرتے ہے اس کو ویج ایوارڈ کہتے ہے۔ ہمارا ہمیشہ یہاں مطالبہ رہا ہے کہ اخباری مالکان ویج ایوارڈ کے مطابق ملازمین کو تنخواہیں دے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا ہے صحافیوں کی فلاح وبہبود انکی اولین ترجیح ہے، خیبر پختونخوا حکومت نے صحافیوں کے لیے انڈومنٹ فنڈ کا اجرا کیا ہے۔ جس سے انکو میڈیکل ملتا ہے۔ بیرسٹر سیف نے بتایا انہوں نے گرانٹ بھی دیئے ہیں، قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخوا کے تمام پریس کلبز کو وقتا فوقتا گرانٹس بھی دیئے جاتے ہیں۔

 

Show More

Misbah Utmani

مصباح الدین اتمانی، قبائلی ضلع باجوڑ، ٹی این این رپورٹر+ فری لانس جرنلسٹ، زیادہ تر مرجنلائزڈ کمیونٹیز، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے حوالے سے لکھتے ہیں اور ویڈیوز بھی بناتے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button