عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

خیبر پختونخوا میں صحافت، سچ بولنا، زندگی پر بھاری کیوں؟

رخسار جاوید

خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں صحافت ایک مشکل اور خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف صحافیوں کو ریاستی اداروں کے دباؤ کا سامنا ہے، وہیں جرائم پیشہ عناصر، سیاسی کارکنان، اور حتیٰ کہ بعض اوقات اپنے ہی ساتھیوں اور صحافتی تنظیموں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار لحاظ علی کا کہنا ہے کہ ’’فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ سو فیصد درست ہے کہ خیبرپختونخوا صحافیوں کے لئے پاکستان کا سب سے خطرناک صوبہ بن گیا ہے، جہاں صحافیوں کو حملوں، گرفتاریوں، سنسرشپ اور قانونی پابندیوں کا سامنا ہے، یہاں صحافت کا مطلب نالیوں، سڑکوں یا موسم کی رپورٹنگ نہیں رہا۔ جب آپ خبر دیتے ہیں، تو اکثر وہ ملیٹنسی، کرپشن یا اداروں کی بے ضابطگیوں سے متعلق ہوتی ہے، اور یہی خبریں صحافیوں کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔‘‘

لحاظ علی کے مطابق باجوڑ، مہمند، جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قتل ہو چکے ہیں۔ ’’صحافت یہاں ایک مشن ہے، لیکن اس مشن کو اپنانے کی قیمت بعض اوقات زندگی بن جاتی ہے۔‘‘

پیکا قانون: اظہار رائے یا خطرہ؟

لحاظ علی پیکا (PECA) قانون کے اطلاق اور اس کے غلط استعمال پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے اس قانون کے تحت ایسے اختیارات حاصل کر لیے ہیں جن سے کسی بھی مخالف آواز کو آسانی سے خاموش کرایا جا سکتا ہے۔

’’حال ہی میں وحید مراد کے خلاف جو مقدمہ درج ہوا، وہ خود کچھ لکھنے کی بجائے صرف اختر مینگل کی ٹویٹ ریٹویٹ کر رہا تھا۔ ایف آئی آر میں اختر مینگل کا نام غائب کر کے سارا الزام وحید مراد پر ڈال دیا گیا۔ یہ قانون رائے کی آزادی کے خلاف ایک ہتھیار بن چکا ہے۔‘‘

تاہم وہ میڈیا کی غیر ذمہ داری پر بھی تنقید کرتے ہیں: ’’پیکا ایکٹ کا استعمال غلط طریقے سے کیا گیا تھا، جہاں میں اس ایکٹ کے غلط استعمال کے خلاف ہوں وہی اس شتر بےمہار میڈیا کے بھی خلاف ہوں۔ کیونکہ میڈیا پر بھی سنسنی پھیلانے والی اور جعلی خبروں کے خلاف بھی پابندی ہونی چاہیئے۔‘‘

خطرات صرف ریاستی اداروں سے نہیں

لحاظ علی کا کہنا ہے کہ ’’رپورٹنگ کے دوران نہ صرف ادارے بلکہ مقامی جرائم پیشہ اور مسلح افراد بھی مزاحمت کرتے ہیں۔ بعض اوقات پریس کلب کے عہدیداران بھی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کمنٹس دینے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘

ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرتے ہوئے انہیں دھمکیوں، گالم گلوچ، اور کردار کشی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ’’اگر پارٹی کے خلاف کچھ لکھ دوں تو کارکنان گالیاں دیتے ہیں، تصویریں ایڈٹ کر کے تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں، یہاں تک کہ میری فیملی کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘‘

قبائلی اضلاع کے صحافیوں کی مشکلات

نوجوان صحافی محراب شاہ آفریدی کا تعلق قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے، اور وہ گزشتہ ایک دہائی سے مختلف قومی و علاقائی میڈیا اداروں کے ساتھ منسلک ہیں۔ دہشت گردی، انسانی حقوق، اور خواتین کے مسائل جیسے حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے محراب کو اپنے صحافتی سفر میں کئی بار سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے کبھی سچ کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا سوچا تک نہیں۔

محراب کا کہنا ہے کہ "2023 میں ان کے قریبی ساتھی خلیل جبران اور خود محراب شاہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ بدقسمتی سے، خلیل جبران کو 18 جون 2024 کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ اس المناک واقعے کے بعد ان کی زندگی بھی مسلسل خطرے میں رہی، اور جون 2024 میں انہیں اپنا گھر چھوڑ کر ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہونا پڑا۔”

انکا کہنا ہے کہ آج بھی وہ شدید ذہنی دباؤ، عدم تحفظ اور مسلسل خطرات کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ان کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ "جب تک سانس باقی ہے، سچ کا چراغ جلتا رہے گا۔” ان کا وجود قبائلی صحافت کا وہ روشن چراغ ہے جو تاریکیوں میں امید کی لو لیے جل رہا ہے۔

خواتین صحافی کی دوہری جدوجہد

بشریٰ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے، اور وہ گزشتہ سات سالوں سے صحافت سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بارہا شدید خطرات، مقامی ثقافتی پابندیوں اور ادارہ جاتی لاپرواہی کا سامنا کر چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

ان کا کہنا ہے کہ : ’’ہم جیسی خواتین صحافیوں کے لیے سیکیورٹی، اداروں کی سپورٹ اور سماجی قبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ رپورٹنگ کے دوران بارہا ایسے واقعات پیش آئے جہاں جان کو خطرہ لاحق ہوا، لیکن جن اداروں کے ساتھ کام کیا مشکل وقت میں وہ ادارہ پیچھے ہٹ گیا۔‘‘

ان کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواتین صحافیوں کو اکثر وہ رپورٹنگ نہیں دی جاتی جو کسی بڑے ایشو پر ہو، اور اگر دی بھی جائے تو روایتی پابندیاں اور مرد صحافیوں کی اجارہ داری خواتین کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

’’بعض سٹوریز میں، نام بدل کر کہانی سنانی پڑتی ہے کیونکہ اصل کرداروں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی تحفظ حاصل نہیں، لیکن میں کبھی خوف کی بنیاد پر اپنی رپورٹ واپس نہیں لیتی۔‘‘

بشریٰ محسود کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو نہ صرف مقامی کمیونٹی بلکہ خود اداروں کی جانب سے بھی تربیت، سیکیورٹی اور اخلاقی سپورٹ کی ضرورت ہے۔

’’اگر ہماری کمیونٹی اور ادارے ساتھ کھڑے ہوں تو ہم کسی بھی خطرے کا سامنا کر سکتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے اکثر ہمیں لباس یا کردار پر سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نہ کہ ہماری رپورٹنگ پر۔‘‘

صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی: خاموش تماشائی؟

لحاظ علی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ صحافتی تنظیمیں اکثر اپنے مالکان یا عہدیداروں کے مفادات کے لیے لڑتی ہیں، نہ کہ عام صحافیوں کے حقوق کے لیے۔

’’سول سوسائٹی بھی کمزور ہو چکی ہے۔ بیشتر این جی اوز صرف پراجیکٹس کے پیچھے بھاگتی ہیں، جب تک فنڈنگ نہ ہو، کوئی کام نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی مل کر عملی صحافت کے تحفظ کے لیے متحد ہوں۔‘‘

مستقبل صرف تحقیقی صحافت کا

لحاظ علی کا کہنا ہے کہ ’’آج کے دور میں وہ صحافت ختم ہو رہی ہے جس میں صرف بیانات چھپائے جاتے تھے۔ اب ہر چیز سوشل میڈیا پر فوری دستیاب ہے۔ مستقبل صرف انویسٹیگیٹو جرنلزم کا ہے، جو صحافی خود تحقیق کر کے حقائق سامنے لاتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اخبار کی افادیت کم ہو چکی ہے: ’’کبھی دن میں تین تین بار اخبارات چھپتے تھے، آج بمشکل تین ہزار کاپیاں بکتی ہیں۔ اب خبریں ایکس (ٹوئٹر) یا دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے فوری مل جاتی ہیں۔‘‘

فائزہ حسن، جو فریڈم نیٹ ورک کی پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں، بشریٰ محسود کے نقطہ نظر کی توثیق کرتی ہیں۔ ان کے مطابق علاقائی اور خواتین صحافیوں کو تربیت، سیکیورٹی اور مالی سہولیات کے مواقع محدود ہیں۔ ’’اکثر ٹریننگز اسلام آباد، لاہور یا کراچی میں ہوتی ہیں، جہاں علاقائی صحافیوں کو رسائی ہی نہیں ملتی۔ خواتین کی حاضری نہ ہونے کی بڑی وجہ ان پر ڈیوٹی اور گھریلو ذمہ داریوں کا دباؤ ہوتا ہے۔‘‘

فائزہ کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو درپیش خطرات کو ختم کرنے کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص طور پر ورک پلیس ہراسانی سے متعلق قانون پر عمل درآمد، مساوی مواقع، اور محفوظ واپسی کے لیے ادارہ جاتی سپورٹ۔ ’’ادارے صرف تنقید نہ کریں بلکہ قیادت، تحفظ اور تربیت دے کر خواتین صحافیوں کو بااختیار بنائیں۔‘‘

دونوں خواتین اس بات پر متفق ہیں کہ قبائلی علاقوں کی خواتین صحافیوں کو رپورٹنگ کے موقع کم دیے جاتے ہیں، اور اکثر ان کی تیار کردہ سٹوریز مرد صحافیوں کو سونپ دی جاتی ہیں۔ اس امتیاز کے باوجود، وہ پرعزم ہیں۔

جہاں ریاستی دباؤ، جرائم پیشہ عناصر اور سماجی پابندیاں صحافیوں کو خاموش کرانے پر تُلی ہوئی ہیں، وہیں چند باحوصلہ آوازیں، بالخصوص خواتین صحافی، تمام تر خطرات کے باوجود قلم کا علم تھامے کھڑی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی ادارے، ریاستی مشینری اور سول سوسائٹی محض بیانات سے آگے بڑھ کر ان آوازوں کے تحفظ، تربیت اور آزادیٔ اظہار کے لیے عملی اقدامات کریں، وگرنہ وہ دن دور نہیں جب سچ لکھنے والے صرف ماضی کا قصہ رہ جائیں گے۔

Show More

Rukhsar Javed

رخسار جاوید نے صحافت اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور میڈیا کے شعبے میں چھ سال کا تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے ریڈیو جرنلسٹ اور پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ہے۔ مقامی اور قومی میڈیا تنظیموں اور سرکاری محکموں کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔ انہیں ڈیجیٹل میڈیا اور ڈاکومنٹری بنانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ اس وقت وہ ٹی این این میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button