عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

”میڈیا میں کام کر رہی ہے تو کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے گی “

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور میں مقیم بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے ساتھ کام کرنے والی خاتون صحافی فاطمہ نازش کہتی ہے کہ وہ گزشتہ 8 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہے اور اس دوران انہوں نے کئی مرتبہ دفاتر اور باہر فیلڈ میں ہراسانی کا سامنا کیا ہے مگر انہوں نے حالات کا مقابلہ کرکے خود کو ثابت قدم رکھا۔

فاطمہ نازش کہتی ہے کہ پہلے ایام میں جب وہ دفتر آتی تھی تو وہ حالات کے بارے میں نہیں جانتی اور کام سیکھانے کی غرض سے اکثر کچھ لوگ انہیں اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے تھے، مگر میں انہیں ‘شٹ اپ کال’ سے خاموش کروا دیتی، اسی طرح مشکل وقت گزرنے کے بعد میں نے کام سیکھ لیا۔

وہ بتاتی ہے "اسکے بعد فیلڈ میں جانے کے بعد ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جہاں پر اکثر لوگ میرے کپڑوں پر تبصرہ کرتے تھے مگر پھر تجربہ یوں ہوا کہ کسی بھی علاقے میں جانے سے پہلے وہاں کے روایات کے مطابق کپڑے پہننے چاہیئے”۔

"میں اسلام آباد جاتی ہوں وہاں پر میں اپنی مرضی کے کسی بھی قسم کے کپڑے پہن سکتی ہوں، پشاور سٹی میں بھی ماحول اچھا ہے مگر دیہاتی علاقوں میں مشکلات ہے”۔

وہ بتاتی ہے "بعض اوقات فیلڈ میں رپورٹنگ کے دوران لوگ تصویر لینے اور ٹک ٹاک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو میڈیا میں کام کرنے والی خاتون ہے تو یہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگی مگر میں بیشتر اوقات انکار کرتی ہو کونکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی کے ساتھ بھی ویڈیو اور تصاویر بنائیں”۔

فاطمہ کہتی ہے "میرے کپڑوں پر بھی اعتراض ہوا ہے، کیمرہ مین کے ساتھ کام کرنے پر بھی مجھے طعنے ملے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ میں کسی کو وضاحتیں دوں مگر پھر بھی ایک ذہنی دباؤ موجود ہوتا ہے”

مُسکا صافی بنیادی طور پر افغانی نژاد گزشتہ چھ سالوں سے پشاور میں ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے اشنا ریڈیو کے ساتھ بطور رپورٹر کام کرتی ہے جن کے آباو اجداد 80 کی دہائی میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں منتقل ہوچکے ہیں۔ جس نے اپنی صحافت کی ڈگری یونیورسٹی آف پشاور سے حاصل کی ہے، کہتی ہے پاکستان اور افغانستان دونوں میں ممالک میں خواتین کو میڈیا میں کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب ایک خاتون اپنی صحافتی کام کی غرض سے باہر نکلتی ہے تو وہاں سے اُن کیلئے چیلنجز کا سامنا کرنا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا باہر کام کیلئے اور بالخصوص میڈیا میں کام کرنے کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

مُسکا صافی کہتی ہے کہ عوام یہ سمجھتی ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین مردوں کے ساتھ بات کرتی ہے تو یہ اچھی کردار کی مالک نہیں ہوتی بلکہ بہت کم لوگ ہیں جو تھوڑا بہت شعور رکھتے ہیں وہ اس کام کو ایک باعزت روزگار سمجھتے ہیں۔

مُسکا صافی نے خیبرپختونخوا کی پشاور یونیورسٹی سے سال 2019 میں جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔ کہہتی ہے "میری کلاس میں تقریباً آٹھ لڑکیاں پڑھتی تھی جن میں زیادہ تر لڑکیاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس فیلڈ میں نہیں آئی، اُن میں سے یا تو یونیورسٹیوں میں پڑھانے جاتے ہیں اور یا کسی ادارے میں بطور پی آر او کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون خود کو مضبوط محسوس نہ کریں تو وہ گھروں تک ہی محدود رہ جاتے ہیں”۔

اُن کا کہنا ہے "میری اپنے خواتین دوست ہیں جو پڑھنے کے بعد جرنلزم کی فیلڈ میں نہیں آئی، اُن میں سے پھر بھی اگر کسی کو اپنی میڈیا فیلڈ میں اپنی ہی صلاحتیں بروئے کار لانے کا شوق ہو تو وہ یا تو اینکرز بن گئیں یا یا ڈیسک پر رپورٹنگ کرتی ہیں، اُن میں سے میں واحد خاتون ہوں جو باہر فیلڈ میں کام کرتی ہوں”۔۔

مُسکا فیلڈ میں پیش آنے والے چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہتی ہے ” میں کیمرہ ورک، ایڈیٹنگ، سکرپٹ رائیٹنگ، انٹرویو لینا اور حالات کو نظر میں رکھنے کے سارے گُر سمجھتی ہو مگر پھر بھی میرے ساتھ ایک کیمرہ مین ہوتا تاکہ وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سامنے آنے پر مردوں کے ساتھ کُھل کر بات کر سکے”۔

اُن کا کہنا ہے "یہاں پر اگر کوئی اکیلی خاتون دیکھیں تو منفی رویوں اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو اس سے میں کیسے نمٹ لوں گی یا اگر میں رپورٹ کے آخر میں پی ٹی سی (پیس ٹو کیمرہ) کرتی ہوں تو یقین مانیں اس وقت مردوں کا ایک بڑا ہجوم اکھٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے ،جس سے مجھے پریشانی ہوتی ہے اور میں اپنے الفاظ بھول جاتی ہوں، پانچ چھ ٹیکس لیتی ہوں”۔

انہوں نے بتایا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب میں اپنی رپورٹ فائل کرنے کیلئے پاک افغان بارڈر پر جاتی ہوں تو راستے میں مرد سیکیورٹی افراد کھڑے ہوتے ہیں تو اُن سے بات کرنا میرے لئے مشکل ہو جاتا ہے جس کیلئے میں اپنی کیمرہ مین کو آگے کر کے اُن سے بات کروا لیتی ہوں۔

خیبرپختونخوا کی پانچ بڑی یونیورسٹیوں میں جرنلزم کے علوم پڑھائے جاتے ہیں جن میں ہزارہ یونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی، ملاکنڈ یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی سرفہرست ہیں، جن سے ہر سال تقریباً 250 طلبہ فارغ ہوجاتے ہیں جن میں مجموعی طور پر 20 فیصد خواتین شامل ہوتے ہیں۔۔

یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر بخت زمان یوسفزئی کہتے ہیں کہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ہر سال 50 طلباء فارغ ہوتے ہیں جن میں 8 سے 10 تک طالبات ہوتی ہیں مگر ان طالبات میں ایک یا دو فیلڈ میں جاتی ہیں اور باقی سب یا تو ٹیچنگ یا کسی سرکاری دفتر کو جوائن کرتی ہیں۔

بخت زمان کا کہنا ہے "میں نے یونیورسٹی کی بہت کم طالبات ایسی دیکھی ہیں جو فیلڈ میں مردوں کے برابر کام کرتی ہے اور اُس کی وجہ معاشرتی رویوں میں منفی رجحان اور قدامت پسندی ہے”۔

خیبرپختونخوا میں شعبہ صحافت کے ساتھ بہت کم تعداد میں خواتین وابستہ ہیں مگر دیگر اضلاع کی نسبت پشاور میں فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین رپورٹرز کی تعداد 8 سے 10 تک ہے جبکہ بیشتر خواتین ڈیسک پر رپورٹنگ کرتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی کے قانون (آر ٹی آئی) کے ذریعے صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق ہرسال خواتین کے خلاف جرائم کی شکایات کے لئے آنے والی درخواستوں کی تعداد میں اضافی دیکھنے میں آرہا ہے۔

2020-2021 میں صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کو موصول ہونے والی رپورٹس کی تعداد 378 تھی جبکہ 2022-2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 1,222 ہوگئی، رواں سال صرف 5 ماہ میں یہ تعداد 162 تک پہنچ گئی ہے۔

صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کے دفتر میں درج ہونے والی شکایات کی کل تعداد 1762 ہے، جن میں سے 554 کیسز کے فیصلے سنائے گئے، 141 کیسز دوسری عدالتوں میں بھیج دیے گئے ، 25 کیسز آن ہولڈ ہیں جبکہ 1038 کیسز انڈر پراسس ہیں۔

خیبر پختونخوا کے صحافیوں کے حقوق کی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ کے ساتھ رجسٹرڈ فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 18 ہے جبکہ مرد صحافیوں کی تعداد 500 سے زیادہ ہے۔

تنظیم کے صدر کاشف الدین سید کا کہنا ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے جس کی کئی وجوہات ہے مثلاً میڈیا انڈسٹری کی معاشی طور پر کمزوری اور خواتین کو درپیش معاشرتی مسائل مگر ماضی کی نسبت اس میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے تو اکثر خواتین انٹرنشپ کرکے ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہو جاتی ہے۔

فاطمہ نازش کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی ادارے میں باضابطہ شکایت درج نہیں کی کیونکہ وہ اسے اپنی زندگی کا معمول سمجھ چکی ہیں۔

"منفی رویوں کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو محفوظ، مضبوط اور ثابت قدم رکھیں۔”

خیبرپختونخوا کی صحافتی فیلڈ میں خواتین اگرچہ تعداد میں کم ہیں، لیکن ان کی موجودگی نہ صرف معاشرتی رجحانات کو چیلنج کر رہی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے راستے ہموار کر رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ادارے، حکومت اور معاشرہ مل کر خواتین کے لیے صحافت کے دروازے کھلے رکھیں، تاکہ وہ نہ صرف اپنی آواز بلند کر سکیں، بلکہ دوسروں کی بھی نمائندگی کر سکیں۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر ویب سائٹ اور ریڈیو کیلئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ 2014 سے عملی صحافت میں خدمات سرانجام دینے والے رفاقت اللہ رزڑوال نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button