عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

پشاور دھماکہ میں جاں بحق مفتی منیر شاکر کون تھے؟

لشکر اسلام کے بانی مفتی شاکر کا انداز بڑا بے باک اور جارحانہ تھا، اور اسی وجہ سے جہاں ہزاروں لوگ ان کے ہم خیال بنے وہیں اور بہت سے مخالف بھی! حالیہ عرصے میں وہ اپنے بیانات کی وجہ سے فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔

پشاور دھماکے میں جاں بحق ہونے والے مفتی منیر شاکر مولوی رحمت اللہ کے ہاں 1969 میں ضلع کرک میں پیدا ہوئے۔ 2004 میں باڑہ، ضلع خیبر، میں مسلح مذہبی تنظیم، لشکر اسلام، بنائی۔ دیوبند مسلک کی ذیلی شاخ پنج پیر کے نمائندے رہے۔ "اشاعت توحید”میں عہدہ دار بھی رہے۔

چھ سات سال قبل "اشاعت توحید” کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہوئے تو مفتی شاکر نہ صرف سیاسی و جماعتی طور علیحدہ ہوئے بلکہ "اہل قران” والوں کا منہج اختیار کیا اور اہل سنت کا مشہور یا جمہور کا مسلک بھی چھوڑا۔ اس حوالے سے "البرھان علی من اعراض عن القران "، "الفرقان بین عبادالرحمن” ” الفرقان بین دین الرحمان ودین ایران” اور "کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جادوگر نے شکست دی” جیسی کتب لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایران والوں نے جعلی احادیث اہل سنت کی اہم کتابوں جیسے بخاری و مسلم میں داخل کر کے دین کو بدل دیا ہے جبکہ دین دراصل وہ ہے جو قرآن مجید بیان کرتا ہے۔

2004 میں لشکر اسلام کے نام سے ضلع خیبر میں ایک تنظیم بنائی اور باڑہ میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے اپنے خیالات کا پرچار کرنے لگے۔ اس دوران پیر سیف الرحمان، جو 1980 میں افغانستان سے آئے تھے اور باڑہ میں مقیم تھے، کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے۔ پیر سیف الرحمان نے مقابلے میں 2005 کو ایف ایم ریڈیو سٹیشن قائم کیا۔دونوں کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوا۔ 29 مارچ 2006 کو مفتی شاکر نے ان پر بڑے حملے کی تیاری کی۔ دونوں کے مابین تصادم جب علاقے میں امن وامان کا بڑا مسئلہ بنا تو 6 ماہ بعد قومی جرگے نے مفتی شاکر اور پیر سیف الرحمن کو باڑہ سے بے دخل کر دیا۔ مفتی منیر شاکر کے بعد منگل باغ لشکر اسلام کے امیر بن گئے۔ پھر 2008 میں لشکر اسلام پر پابندی لگی۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: مسجد کے باہر دھماکے میں مفتی منیر شاکر جاں بحق

ان کے والد کے بقول مفتی شاکر کو کراچی ائیر پورٹ سے اٹھا لیا گیا تھا؛ دو سال سے لاپتہ رہے۔ مفتی شاکر کا انداز بڑا بے باک اور جارحانہ تھا، اور اسی وجہ سے جہاں ہزاروں لوگ ان کے ہم خیال بنے وہیں اور بہت سے مخالف بھی! حالیہ عرصے میں وہ اپنے بیانات کی وجہ سے فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔

جب” اشاعت توحید” سے منسلک تھے تو توحید، پیری مریدی، منکرِ حدیث، زیارت، اور سخات جیسے مسائل کے حوالے سے مناظرے، بیانات، اور تصنیف کرتے رہے۔ آخری سالوں میں اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔ اس کے ساتھ ریاستی جبر، پشتونوں کے ساتھ زیادتی، اور دھشت گردی کیخلاف جنگ کے سخت مخالف بنے۔ پی ٹی ایم کے جرگوں میں شرکت کی۔ 11 اکتوبر 2024 کو پشتون جرگے میں بڑے دبنگ انداز میں حصہ لیا۔ یہ نڈر، بہادر، بے باک اور حوصلہ مند شخص آج، 15 مارچ بروز ھفتہ، بمطابق 14 رمضان 1426 ھجری ایک دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ دھماکہ ان کے مدرسہ، بقام شگی قلعہ توحید آباد، پشاور، کے دروازے کے سامنے عصر کو ہوا۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیوہ اور دو بیٹے عبدالرحمان اور عبداللہ چھوڑے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button