”ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب سگریٹ نوشی شروع کی”
اس سوال کے جواب پر کہ کیا کبھی کسی پولیس والے نے اسے سگریٹ نوشی سے نہیں روکا؟ حسین نے بتایا کہ اب تو وہ بڑا ہو گیا ہے، کالج کا طالب علم ہے لیکن بچپن میں بھی کبھی کسی پولیس والے نے روکا نا ہی کسی دکاندار نے کبھی سگریٹ بیچنے سے انکار کیا۔ حسین کی ٹی این این سے گفتگو
”ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب سگریٹ نوشی شروع کی۔ سکول کے قریب ایک دکان سے سگریٹ بہ آسانی مل جاتی تھی اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر پیتا تھا۔”
حسین کی عمر 20 سال ہے اور ایک گورنمنٹ کالج سے بی ایس کر رہا ہے؛ وہ کالج کے قریب والی دکان سے سگریٹ خرید کر پیتا ہے۔ اس سوال کے جواب پر کہ کیا کبھی کسی پولیس والے نے اسے سگریٹ نوشی سے نہیں روکا؟ حسین نے بتایا کہ اب تو وہ بڑا ہو گیا ہے، کالج کا طالب علم ہے لیکن بچپن میں بھی کبھی کسی پولیس والے نے روکا نا ہی کسی دکاندار نے کبھی سگریٹ بیچنے سے انکار کیا۔
ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ سے زائد پاکستانی سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال 80 لاکھ افراد تمباکو نوشی سے مرتے ہیں۔ انسداد تمباکو آرڈیننس 2002 کے تحت تمام تعلیمی اداروں کے آس پاس 50 میٹر کی حدود میں تمباکو نوشی پر پابندی؛ جبکہ بچوں اور نوجوانوں کو تمباکو مصنوعات فروخت کرنے پر سخت سزائیں ہیں۔
پاکستان میں تمباکو پالیسی پر اثرانداز ہونے والی جوہات
اس حوالے سے خیبر پختونخوا اتحاد کاشتکاران کے وائس چیئرمین محمد اقبال نے بتایا کہ یہ اثرات نہ صرف عوامی صحت بلکہ معیشت، زراعت، اور قانون سازی پر مرتب ہوتے ہیں۔
اقتصادی اثرات
محمد اقبال کے مطابق تمباکو کی صنعت سے سرکار کو بھاری ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جو قومی خزانے کے لیے اہم ہے اس لیے تمباکو کے حوالے سے پالیسی بنانے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔
زارعت پر اثرات
چونکہ یہاں کے کاشتکاروں کے لیے تمباکو اہم زریعہ معاش ہے اس لئے پالیسی بنانے والوں پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ تمباکو کی مد میں ان سے رعایت کریں۔ اس کے علاوہ تمباکو کے کاشتکار بھی مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ خیبر پختونخوا کو، جو اس صنعت کا ایک بڑا مرکز ہے، اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں اسمگلنگ، ایکسائز ڈیوٹی اور قانونی تفاوت اہم ہیں۔
”تین سو ارب روپے کے سگریٹس سمگل ہو کر آتے ہیں”
اقبال نے سب سے پہلے تمباکو کی صنعت میں اسمگلنگ کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق ہر سال پاکستان میں تقریباً 300 ارب روپے مالیت کے سگریٹس سمگل ہو کر آتے ہیں جو نہ صرف غیرقانونی ہوتے ہیں بلکہ ان میں مقامی طور پر اگائے گئے تمباکو کا استعمال بھی نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ مقامی کاشتکاروں کے لیے خاص طور پر نقصان دہ ہے کیونکہ ان کا تمباکو مارکیٹ میں نہیں آ پاتا اور وہ معاشی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اسمگلنگ کی وجہ سے مقامی صنعت کو غیرقانونی مصنوعات سے سخت مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو اس کے استحکام اور ترقی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
اسمگلنگ نہ صرف مقامی صنعت کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ یہ حکومت کے لیے بھی ٹیکس کی مد میں نقصان کا باعث بنتی ہے۔ جب غیرقانونی مصنوعات مارکیٹ میں آتی ہیں تو یہ سرکاری خزانے میں کمی کا سبب بنتی ہیں جو ایک بڑی معاشی پریشانی ہے۔
ایکسائز ڈیوٹی
دوسرا بڑا مسئلہ جو اقبال نے اٹھایا وہ تمباکو کی فصل پر عائد ایکسائز ڈیوٹی ہے۔ پاکستان میں تمباکو کی خام فصل پر 390 روپے فی کلوگرام ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی ہے جو مقامی کاشتکاروں کے لیے اضافی بوجھ بن گئی ہے۔ عموماً ایکسائز ڈیوٹی تیارشدہ مصنوعات پر لگائی جاتی ہے جیسے کہ سگریٹ یا دیگر پروسیسڈ مصنوعات، لیکن خام تمباکو پر اس ڈیوٹی کا اطلاق غیرمنطقی سمجھا جا رہا ہے۔
اقبال کے نزدیک اس ایکسائز ڈیوٹی کی وجہ سے مقامی کاشتکاروں کو اپنی فصل مارکیٹ میں فروخت کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ ان کی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی صنعت کمزور پڑ رہی ہے بلکہ برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
قوانین پر عمل درآمد کمزور
اقبال نے بتایا کہ قوانین کاشتکاروں کے لیے کافی سخت ہیں لیکن صنعت موثر قوانین بنانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قانون میں ہے کہ عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی پر سخت پابندی ہے لیکن پھر بھی کی جاتی ہے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اگر قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا تو کوئی اس کی خلاف ورزی کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
تعلیمی اداروں کے اردگرد 50 میٹر کی حدود میں تمباکو مصنوعات کی فروخت پر پابندی ہے لیکن پھر بھی طالب علموں کو بہ آسانی مل جاتی ہیں۔