مردان میں اقلیتی برادری کو نوکری کے حصول کے لئے درپیش مشکلات اور انکا حل
ماہ نور شکیل
ضلع مردان کے رہائشی حسن آریان کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ اُنہوں نے سال 2022 میں خیبرپختونخوا ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں پٹواری کی پوسٹ کیلئے ٹیسٹ انٹرویو ہونے کے بعد اُن کو ایک سال کے لے پٹواری کے ایک سال کورس کے لے بھیج دیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود بھی اُن کو محکمے کی طرف سے نوکری نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے ساتھ دیگر اُمیدوار جن کا ٹیسٹ ، انٹریو اور ایک سال کا کورس مکمل ہوا توا اُن کو نوکری دی گئی ہے لیکن محکمے کے اعلی حکام کو باربار اقلیتی کوٹے پر نوکری دینے کی یاد دہانی کے باجود بھی اس بارے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس محکمے میں سفارش پر لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کو اپنے کوٹے پر بھی بھرتی نہیں کیا جارہا تھا۔
مردان میں ہندوں اور سکھ کی نسبت مسیحی برادری کی آبادی زیادہ ہے لیکن اس کے باجود بھی سرکاری نوکریوں میں مسیحی برادری کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضلع مردان کے رہائشی سماجی کارکن جاوید مسیح کا کہنا ہے کہ مردان میں پہلے تو سرکاری نوکریوں میں اقلیتی برادری کے متخص کوٹے کی بنیاد پر نوکریاں نہیں دی جاتی اور جب کسی اشتہار میں قانون کے مطابق سیٹ کا اعلان کیا جاتا ہے تو اُس میں اکثر ہندو یا سیکھ برادری کے لوگ بھرتی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلیمی معیار مسیحی برادری سے بہتر ہوتا ہے۔
ضلع مردان سے تعلق رکھنی والی ماہر قانون صدف اشرف ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قانون کے مطابق ہرسرکاری محکمے میں بھرتی کیلئے پانچ فیصد کا کوٹہ اقلیتی برادری کیلئے مختص کیا گیا ہے تاہم مزکورہ اعداد بہت کم ہونے کے باوجود بھی بہت سے جگہوں پر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ مردان میں بہت سے محکموں میں اقلیتی برادری کے لوگ کام نہیں کرتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر اقلیتی برادری کی کوٹہ پر بھرتیاں نہیں کرائی گئی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم اجالا سحر مردان میں اقلیتی حقوق کیلئے کام کررہا ہے۔ اجالا سحر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرجلوہ سحر نے بتایا کہ ملک کے باقی حصوں کی طرح مردان میں بھی اقلیتی برادری مشکلات کا شکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مردان سمیت ملک بھر میں اقلیتی برادری کیلئے کوئی بھی ادارہ سرکاری محکموں میں نئے تعیناتیوں کا قانون کے مطابق خاص خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے اقلیتی برادری کے اکثر لوگ بے روزگار ہوتے ہیں۔
جلوہ سحر نے بتایا کہ اصل مسئلہ پالیسیز میں ہیں اور جب تک ایسے قوانین اور پالیسیاں نہیں بنائی جاتی جس میں اقلیتی برادری کے نہ صرف حقوق بلکہ تحفظ کی بات کو یقینی بنائے بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سزا کا بھی ایک نظام ہونا چاہیئے تاکہ یہ بھی احساس محرومی کے شکار نہ ہوں۔
ملک کی ساتویں مردم شماری کے مطابق ضلع مردان میں مسیحی برادری کی آبادی دس ہزار ہے جن میں پانچ ہزار تین سو خواتین شامل ہیں۔ ہندووں برادری کے 30 خاندان آباد ہےجن کی آبادی 145 افراد پر مشتمل ہیں، جبکہ 54 خاندان سکھ برادری کی ہیں، جن کی کل آبادی چار سو 68 افراد پر مشتمل ہیں جبکہ باقی اقلیتی برادری کی تعداد نہ ہونے برابر ہے۔ اشوب کپور کا کہنا ہے کہ معلومات کے مطابق اس وقت ضلع مردان میں دو ہزار سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ اقلیتی برادری میں 14 افراد ڈاکٹرز ہیں، 50 کے قریب افراد دوسرے محکموں میں سرکاری نوکری کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
آشوب کپور لوکل گورنمنٹ میں ضلع مردان کے تحصیل ممبر اور ضلع مردان سکھ برادری کے صدربھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ضلع مردان کی اقلیتی برادری کے نوجوانوں کو علاقے سے باہر نوکری کرنے میں دشواری ہوتی ہیں جبکہ مردان میں پانچ فیصد کوٹہ کیلئے امیدوار زیادہ ہوتے ہیں اس وجہ سے انکو نوکری ملنے میں مشکلات ہے جبکہ کچھ لوگ کم تعلیم کی وجہ سے نوکری سے رہ جاتے ہیں۔ اُن کے بقول نوکری نہ ہونے کی وجہ سے اقلتیی نوجوان نجی اداروں میں کم اجرت پر کام کرتے ہیں یا اپنے گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے چھوٹے کاروبار کرتے ہیں۔
نگت سیماء اقلیتی نوجوانوں کے حقوق کے لے کام کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر اقلیتی برادری کے افراد کو اپنے حق کے حصول کا علم نہیں ہوتا جبکہ ملک میں بہت سے ایسے ادارے موجود ہیں جو اقلیتی برادی کو حق دینے کیلئے کام کرتے ہیں یا ان کو اگر کہی پر مسلہ ہو تو اس کے حل میں ان کے مدد کرتے ہیں ۔اُنہوں نے بتایاکہ اپنے حقوق کے حوالے اقلیتی نوجوانوں میں اگاہی بہت زیادہ ضروری ہے۔
نگت کے مطابق مردان سمیت پورے صوبے میں اقلیتی برادری کیلئے صرف کلاس فور تک کی ملازمتوں میں کوٹے کی بات زیادہ کی جاتی ہیں جبکہ اعلی عہدوں پر ان کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔
ضلع مردان عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والی صائمہ امانت کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں اقلیتی برادری کے لیے نوکری کا کوٹہ دس فیصد بھی کردیا جائے تو بھی انکو نوکری کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نوکری کیلئے جو حقدار ہوں اور میرٹ پر پورا اترے تو اُنکی بجائے رشوت دینے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ صائمہ امانت کا کہنا ہے کہ نہ صرف اقلیتی برادری بلکہ اکثریتی نوجوانوں کو بھی رشوت کے مسائل کا سامنا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بہت کم ہی اقلیتی برادری کے لوگ اچھی پوسٹوں پر تعینات ہیں کیونکہ سرکاری نوکری اقلیتی برادری کے لیے ایک خواب جیسا ہے۔
ضلع مردان کے ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں آٹھ اقلیتی برادری کے افراد کام کر رہے ہیں۔ ضلع مردان کے ڈپٹی کمشنر فیاض خان شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ ضلعی حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ مردان میں اقلیتی برادری کے جاب کوٹہ پر مکمل عمل درآمد ہوسکیں۔
ڈپٹی کمیشنر کا کہنا تھا کہ ابھی تک ضلعی دفتر میں چھ کلاس فور اور دو کمپیوٹر آپریٹرز کو نوکریاں دی ہے۔ جبکہ جونیئر کلرک کی ایک پوسٹ خالی ہے جس پر بھی اقلیتی برادری ہی کے لوگوں کے ٹیسٹ اور انٹرویو ہوچکے ہیں لیکن حکومت کی جیسے ہی پابندی ختم ہوگی اس پر بھی اہل بندہ تعیناتی کی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ضلعی حکومت نے اقلیتی برادری کیلئے ملازمتوں کے مختص کوٹے پر سو فیصد عمل درآمد یقینی بنایا ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ حکومت نے اقلیتوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ اقلیتوں کوترقی کے یکساں مواقع دے کر قومی دھارے میں شامل کیا گیا ہے۔
نگت سیماء کے مطابق اقلیتی برادری کو نوکریوں میں کوٹہ سمیت تمام مسائل کے حل اور حقوق دینے کیلئے سخت قوانین اور پالسی بنانے کی ضرورت ہے جس پر عمل دارآمد کیلئے بھی ایک طریقہ بنانا ضروری ہے۔