عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

خیبر پختونخوا میں خواتین صحافیوں کے مسائل: ہراسانی، معاشرتی تعصب اور پیشہ ورانہ چیلنجز

رانی عندلیب

"یہ کہاں کی صحافی ہے اس کو ہم صحافی مانتے ہی نہیں ہیں” آئے روز ہر خاتون صحافی کو یہ سننے کو ملتا ہے ۔

ایک خاتون صحافی بننے کا معیار کیا ہے ؟ ان کے ذہن میں ایسا کیا ہے، جسکے بعد وہ کسی کو خاتون صحافی کے زمرے میں ڈال دیں گے۔

پاکستان میں خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات کی خبریں آئے دن پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جن میں، مرد خواتین کو، خواتین خواتین کو اور مرد مردوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ خواہ وہ دفتر ہو، بازار ہو یا تعلیمی ادارے۔ ہراساں کرنے کے الزامات کی آوازیں ہر جانب سے سنائی دیتی ہیں۔

لیکن پشاور جیسے شہر میں خواتین صحافیوں کو جہاں کافی مشکلات کا سامنا ہے وہاں پر "تم تو صحافی نہیں ہو” جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

وگمہ فیروز جس کا تعلق مہمند  سے ہے کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے ایک ادارے کی جانب سے ضم قبائلی اضلاع  میں صحافیوں کے حفاظتی مسائل کے بارے میں سیمینار تھا، تو اس میں مختلف اضلاع سے صحافی آئے ہوئے تھے۔ پینل میں صرف ایک وہ ہی خاتون تھی۔ تو ان سے پوچھا گیا کہ خواتین جرنلسٹ کو خیبر پختون خوا میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وگمہ بھی ایک نامور جرنلسٹ ہے تو خواتین کو اور ان کو کیا چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

تو وگمہ نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ ان کے جو صحافی بھائی ہیں وہ بھی ان کے ساتھ سپورٹیو نہیں ہے۔ ایک صحافی بھائی نے وگمہ کو یہ کہا تھا کہ آپ اچھے خاندان کی ہیں آپ پریس کلب نہ آیا کرے، آپ بدنام ہو جائیں گی۔ حالانکہ وگمہ نے  اس آدمی کا نام نہیں لیا تھا لیکن سننے والوں میں سے ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور غصے سے کہا کہ آپ انہیں  بدنام کر رہی ہیں۔ خواتین کا تو کام ہی یہی ہے کہ ایسے پلیٹ فارم میں خواتین جائیں، وہاں پر یہی مسائل  اٹھاتی ہیں۔

اس آدمی نے غصیلے انداز میں کہا کہ پریس کلب کے تمام لوگ اچھے ہیں آپ جھوٹ بول رہی ہے،وگمہ کوبہت گالیاں دی۔ پینل میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے اس کو کہا کہ تھوڑا سا آرام سے لیکن یہ آدمی اتنے غصے میں تھا کہ اس پینل میں بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کہا کہ آپ پیسوں کے لئے خاموش ہیں اور اس طرح کی عورتوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور وہ اٹھ کر وگمہ کو مارنے کے لیے آیا تھا۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے تمام لوگ وگمہ کو سپورٹ نہیں کر رہے تھے وگمہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ تمام لوگ وگمہ کا ساتھ نہیں دے رہے۔

آڈینس میں بیٹھے ہوئے کسی ایک آدمی نے آواز لگائی کہ چھوڑو اس کو یہ تو بچی ہیں حالانکہ وگمہ کا کہنا ہے کہ میں بچی نہیں ہوں، لیکن یہ لوگ خواتین کو کمزور سمجھتے ہیں ۔ کسی ایک آدمی نے  طنزیہ کہا کہ یہ پختون نہیں ہے اسلام آبادی ہے۔ کیونکہ اس کے بال بچوں کی طرح چھوٹے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی اس دوران اس آدمی کو چپ کروانے کے لیے کہا۔

مگر وگمہ بتاتی ہیں کہ وہ پہلے تو سٹیج سے اتر کر نیچے آئی لیکن پھر اس نے سوچا کہ میں کیوں کانفرنس چھوڑ کر جاؤں؟، پھر یہ سب لوگ کہیں گے کہ یہ ڈر کر بھاگ گئی۔ اس لیے وہ دوبارہ کانفرنس میں آ کر بیٹھ گئی۔ وگمہ کا مزید کہنا ہے کہ پختون معاشرے میں جو خواتین گھر سے باہر کام کرتی ہیں ان خواتین کی کوئی عزت نہیں کرتا لیکن جو صحافی بھائی ہیں ان سے جو توقعات تھی کہ سب  انسانی حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ بھی عام پختون معاشرے کے وہی مرد ہیں جو عورتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ تو کیا خواتین ان تمام مردوں سے ڈر کر گھر میں بیٹھ جائے گی،کیا اس کا یہی حل ہے؟ یا پھر ایسے ہی خواتین کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر مردوں کو باہمت خواتین اچھی نہیں لگتی کہ وہ مردوں سے ان کی ہی فیلڈ میں آکے اپنا نام کمائیں۔

وگمہ سے اتفاق کرتے ہوئے دوسری جانب پشاور شہر سے تعلق رکھنے والی سلمیٰ کا کہنا ہے کہ جب اچانک اس کے والدین کا انتقال ہوا تو اس کی چھوٹی بہن ڈپریشن کا شکار ہوئی، ڈاکٹر نے ان کو مشورہ دیا کہ اس کو کہی سیر کرنے کے لیے لے جائے۔

جب سلمیٰ کے گھر والے گلیات گئے، جنوری کا مہینہ تھا تو موسم کی خرابی کی وجہ سے سلمیٰ اور اس کے گھر والے اس میں پھنس گئے۔ چونکہ سلمیٰ ٹی این این کے ساتھ کام بھی کر رہی تھی تو اس نے ٹی این این کے ساتھ رابطہ کیا تو انھوں نے ان کو ویڈیو پیغام کا کہا۔

جب سلمیٰ نے وہ ویڈیو بنائی، تو لوگوں نے اس ویڈیو پر غلط غلط کمنٹ دینا شروع کئے کسی نے کہا کہ اچھا ہوا کہ پھنس گئے، کسی نے کہا کہ کسی برائی کی سزا ملی ہوگی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہونا چاہیئے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔ غرض ہر قسم کے کمینٹس تھے۔ سلمیٰ کا کہنا ہے کہ کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ ہم کیوں اور کس وجہ سے گئے تھے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا  کے ہر ادارے اور کام کرنے کی جگہ پر خواتین کے ساتھ ہراسانی اور جنسی ہراسانی کے کیسز ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہو پاتے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے واقعات کی شرح تقریباً 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ جن میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی شکایات بھی شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز نے ٹی این این کو بتایا کہ رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد اب بھی اصل واقعات سے کہیں کم ہے کیونکہ صوبے کی ایک بڑی تعداد معاشرے میں اپنی عزت کی خاطر نا صرف ہراسانی کی بات کو چھپاتے ہیں بلکہ  زیادہ تر خواتین کو اس بارے میں آگاہی ہی نہیں ہے اور بہت سی خواتین تو ہراسانی کے معنی بھی نہیں جانتی۔

پاکستان میں 2010 سے ہراسمنٹ کا قانون موجود ہے اور خیبر پختونخوا میں 2018 میں ہراسمنٹ کا قانون آیا اور 2019 میں صوبائی محتسب ادارہ عمل میں آیا۔ ہراسمنٹ کے کیسیز یہ ادارہ حل کر رہا ہے۔

رخشندہ ناز کے مطابق ہراسانی کی زیادہ تر شکایات محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم سے آتی ہیں۔ کیونکہ ان میں خواتین ملازمین کی تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’صوبائی محتسب کے پاس 59 سائبر ہراسمنٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے جو ہم نے ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کو ریفر کئے۔ سوشل میڈیا پر ہراسمنٹ کی شکایتیں زیادہ آتی ہیں۔ چونکہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے تو نا صرف تصویر یا ویڈیو کے ذریعے بلیک میلنگ ہوتی ہے، بلکہ غیراخلاقی میسجز مسنجر پہ  بھیجے جاتے ہیں ۔

انہوں نے خیبر پختونخوا کی تمام خواتین کو فیس بک پر صوبائی محتسب سیکرٹریٹ برائے انسداد جنسی ہراسانی کے نام سے پیج میں شرکت کی دعوت دی ۔ اور کہا کہ اگر ان کو کسی طرح سے بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جائے تو  وہ  اس صفحے  پر راہنمائی حاصل کر سکتی ہیں۔

خالدہ نیاز ہے جو پچھلے 10 سالوں سے صحافت کے میدان میں مختلف اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ فیلڈ میں کسی نہ کسی شکل میں ہراسمنٹ موجود ہے ۔ خالدہ کا کہنا ہے کہ "کئی بار ایسا میرے ساتھ ہوا ہے کہ میں نے اگر سٹوری کے لیے کسی کے ساتھ رابطہ کیا ہے تو بعد میں وہاں سے گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کے میسجز بھی آتے ہیں۔”

اور دوسری بات یہ ہے کہ خیبر پختون خواہ کی اگر میں بات کروں تو یہاں پہ فیلڈ میں کام کرنا  ویسے ہی بہت مشکل ہے۔ انکا مزید کہنا ہے کہ وہ گاؤں سے صبح سویرے اپنے آفس آتی ہے تو لوگ اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ اتنی صبح سویرے گھر سے نکل کر کہاں جاتی ہے چونکہ شہر سے ان کا گاؤں بہت دور ہے اس لیے گھر جاتے ہوئے ان کو شام ہو جاتی ہے اس لئے لوگوں کا کہنا ہے کہ "صبح نکل کر رات کو گھر لوٹتی ہے۔ ایسی نوکری تو ہم نے کہیں نہیں دیکھی؟ ” گاؤں کے لوگوں کو خالدہ کا گھر سے نکلنا بھی ہضم نہیں ہوتا

اس کا مزید کہنا ہے کہ میں شہروں کی بات نہیں کر رہی یہاں کا ماحول گاؤں سے کافی مختلف ہیں۔ گاؤں کے لوگ، لوگوں کی ذاتی زندگی میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ حرکتیں نہ صرف مرد حضرات کرتے ہیں بلکہ خواتین بھی حراس کرنے اور کمنٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے، جیسے خواتین پوچھتی ہے کہ کہاں جا رہی ہو، کیا کرتی ہیں آپ اور اتنا کیوں لیٹ آتی ہے۔

 

Show More

Rani Andaleeb

رانی عندلیب فری لانس لکھاری ہیں جو کہ قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button