بہتر معاشی پالیسیاں ہی ملکی حالات کو ٹھیک کرنے کی ضمانت ہے،صدر سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز
محمد سلمان
ملک میں جاری کئی سالوں سے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کی جو کیفیت چل پڑی تھی اس میں فی الحال بہتری کے کوئی اثار دکھائی نہیں دے رہے، فروری 2024 کے عام انتخابات سے قبل عوامی حلقوں اور کاروبار سے وابستہ افراد کو ایک امید تھی کہ انتخابات کے بعد ملک میں ایک نیا سیٹ اپ آئے گا جو نہ صرف ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے نکالے گا بلکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی اور روزگار بھی بڑھے گا لیکن حکومت اس میں تاحال ناکام دکھائی دے رہی ہے اسی طرح بجٹ 25- 2024 میں لگائے گئے ٹیکسز کی اگر بات کی جائے تو زندگی کا ایسا شعبہ یا روز مرہ اشیا کا ایسا آئٹم نہیں جس پر ٹیکس نہ لگایا ہو یعنی ان اقدامات سے بے یقینی کی فضا کو مزید تقویت ملی۔
اس ضمن میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر فواد اسحاق نے بتایا کہ جو لوگ سنجیدہ طور پر کاروبار کرتے ہیں یا ان کی اکانومی پر نظر ہے انہیں ذیادہ امید نہیں تھی کہ الیکشن کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آئے گی کیونکہ ہمارے ملک کی معیشت جہاں پہنچ گئی ہے جو بیوروکریسی ہے اور ایف بی آر میں جو ہمارے دوست کام کر رہے ہیں ان کی سوچ معاشی انقلاب لانے والی ہے ہی نہیں جب تک ملک میں معاشی انقلاب نہیں آتا پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا ناسور آئی پی پیز ہے۔ جس کی کیپیسٹی پیمنٹ پاکستان کے دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے گزشتہ سال آئی پی پیز کو 2200 ارب روپے کی پیمنٹ کی گئی اور 2122 ارب دفاع کو مختص ہوئے۔اس لیے جب تک ائی پی پیز سے جان نہیں چھوٹے گی ملک کی معیشت نہیں سنبھلنے والی۔
ان کا کہنا تھا کہ ناقص پالیسیوں کا یہی نتیجہ ہے کہ 77 سال ہونے کو ہے اور ہمارا ملک آئی ایم ایف سے ہر وقت مدد مانگ رہا ہوتا ہے اس کے علاوہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بجٹ بنانا فائنانس کا کام نہیں، یہ بجٹ ایف پی سی سی آئی سرحد چیمبر آف کامرس، آئی کیپ اور پاک فوج کے اکنامک ونگ کے حوالے کریں ہم ایک ایسا بجٹ بنا کے دیں گے کہ جس سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔
تنظیم تاجران خیبر پختون خواہ کے صدر ملک مہر الہی نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو خراب معاشی صورتحال کی فضا قائم ہے اس میں امیر سے لے کر غریب تک متاثر ہے جو زیادہ پیسے والا ہے وہ تو برداشت کر رہا ہے اس کا گزر بسر ہو رہا ہے لیکن غریب خودکشیوں پر مجبور ہے۔ خاص کر کاروباری طبقہ ملک چھوڑنے کو تیار بیٹھا ہیں۔
انہوں نے بتایا معیشت سے بھی بڑا مسئلہ ان دنوں لوگوں کے بجلی کے بلوں کا ہے کیونکہ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کا بل ادا کریں یا گھر کے لیے کمائیں دوسری جانب حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کئے ہیں ہم سمجھتے ہے کہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کھربوں روپے ہر ماہ آئی پی پیز کو دیے جا رہے ہیں لہذا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کئے جائیں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے کہ آخر یہ ملک کس طرف جا رہا ہے حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیئے ورنہ ملک انارکی کی طرف چل نکلے گا۔
چھوٹے دکاندار جن میں وقاص احمد، فراز جان اور مدثر حسین شامل ہیں، نے کہا کہ آئے روز کوئی نہ کوئی دکاندار کش پالیسی سامنے لائی جاتی ہے اب ایف بی آر تاجر دوست سکیم کے تحت دکانداروں پر سالانہ لاکھوں کا ٹیکس لگا رہی ہے جو ہرگز ہمیں قبول نہیں حکومت ہوش کے ناخن لے اور حالات کی سنگینی کو سمجھے۔