رول ماڈل ہی بگڑ جائیں تو اولاد کیسے سنورے گی؟
کیف آفریدی
کہتے ہیں کہ بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ سب سے پہلے انسان ہوتے ہیں۔ بچوں کے لئے والدین ان کے دوست ہوتے ہیں اور خوش قسمت ہوتے ہیں وہ والدین جن کے بچے ان کے بہترین دوست ہوتے ہیں۔
آج کل جب والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے نافرمان اور باغی ہوتے جا رہے ہیں، اپنی من مانی کرتے ہیں اور بڑوں کا کہا نہیں مانتے، ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور اخلاقی اعتبار سے کم زور اور پست ہیں لیکن اگر والدین غور کریں اور اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ بچوں کو نافرمان اور خودسر بنانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو والدین کا رجحان جس طرف زیادہ ہوتا ہے اولاد میں خودبخود اس طرف اٹریکشن پیدا ہو جاتی ہے، جب بچہ والدین کو سارا دن مال کمانے کی دوڑ دھوپ میں گم پائے گا، جب بچہ ماں کو ہر وقت کپڑوں کی خریداری، ان کی ڈیزائننگز اور برینڈز پر لگی آفر پر پرجوش ہوتا دیکھے گا، جب بچہ اپنے والدین کو وقت کا بیشتر حصہ ان گیجٹس کے ساتھ مصروف پائے گا تو وہ بچہ بھی اسی رستے پر چلے گا۔
جب والدین کے دل دنیا کی محبتوں میں چور ہو کر خیر اور شر میں فرق بھول جاتے ہیں تو بچہ اس پرفتن دور میں کیسے حق کی طرف مائل ہو گا؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور کی ترجیحات اور ضروریات بہت بدل چکی ہیں اور اولاد کی پرورش، تعلیم اور ان کے معمولات کو اسی تناظر میں دیکھنا اور سنبھالنا ہو گا، مگر بنیادی بات والدین کی توجہ، راہ نمائی اور گھر کا ماحول ہے جو بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں اسی طرح اہمیت رکھتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پرانے دور کی عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت بہترین انداز سے کرتی تھیں۔ انہیں بچوں کی تربیت کرنے کے لیے زیادہ مشقت بھی نہیں کرنا پڑتی تھی کیوں کہ وہ اپنے بڑوں سے شائستہ عادات اور نیک اطوار سیکھتے تھے۔
پرانے زمانے کی عورتوں میں صبر و برداشت کا ایک اہسا مادہ ہوتا تھا کہ نشست و برخاست کے طریقے اور بڑوں سے ادب سے پیش آنا جانتی تھیں۔ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں کو نظرانداز کر کے سب سے محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں۔ تو پھر ظاہری بات ہے کہ ان کے بچے بھی اسی کے عادی بنتے تھے۔ وہ نہ صرف اپنے والدین کا احترام کرتے تھے بلکہ ہر فرد کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور اس اچھی تربیت کی وجہ سے ان بچوں کی والدین کی عزت کو وقار بخشتا تھا۔
میرے خیال میں اُس دور کے مقابلے میں آج کی خواتین میں برداشت کی کمی پائی جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کے سامنے لڑنے جھگڑنے کے ساتھ بدکلامی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ عام ہو گیا ہے۔ اہلِ خانہ اور دیگر لوگوں سے بھی بات بات پر ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے سے ان کی اولاد بھی اسی کی عادی ہو رہی ہے۔ کیونکہ ایک بچے کے لیے رول ماڈل اس کے والدین ہوتے ہیں جنھیں وہ سن سن کر بولنا سیکھتا ہے، اور جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ سوچنا سیکھتا ہے اور اسی طرح یہی بچہ ان کا رہن سہن دیکھ کر وہ زندگی گزارنا سیکھتا ہے، اگر وہ رول ماڈل ہی بگڑ جائیں تو اولاد کیسے سنورے گی؟ والدین کا عقیدہ اور ان کی اخلاقی قدریں اولاد کو بہت متاثر کرتی ہیں۔
بچے والدین سے ہی سیکھتے ہیں اس لئے والدین کو چاہیے کہ خود کو بھی نکھاریں کیونکہ اگر بچہ دیکھے گا کہ اس کے والدین بڑوں کا ادب کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو بچے میں قدرتی طور پر ہی یہ سب چیزیں شامل ہو جائیں گی۔ گھر کا ماحول بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بچپن کے نقوش انمٹ ہوتے ہیں اس لئے والدین کو چاہیے کہ گھر میں پیار اور محبت کا ماحول دیں، والدین آپس میں اتفاق سے رہیں لڑائی جھگڑا نہ کریں اور بچوں کے سامنے کسی بھی قسم کی بحث و تکرار سے گریز کریں۔
اور ایک اہم بات جو نہایت ضروری ہے کہ بچوں کے دل میں صرف اللہ کا ہی خوف رکھیں اس کے علاوہ ان کے ذہن میں کسی بھی قسم کا ڈر پیدا کرنے سے گریز کریں۔ اسی طرح والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور ہر روز نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ والدین کو اس بات کا پتہ ہونا ضروری ہے کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔
بچوں کی اچھی تربیت کا ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ آپ اپنے بچوں کے فارغ اوقات کی منصوبہ بندی کریں، والدین کو یہ علم ہونا چاہیے کہ بچے اپنے فارغ اوقات کو کس طرح گزاریں، کہاں جائیں، کیا کھیلیں؟ ان سب باتوں سے بخوبی واقف ہونا ضروری ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق جاِئز کام کرنے کی اجازت دیں۔ اگر وہ کام کرنا چاہیں تو بجائے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے ان کا ساتھ دیں، اگر والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے دوست بن کر رہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور ان کی ذہنی سطح کو جاننے کی کوشش کریں، اس سے بچے بھی والدین کے دوست بن کر اپنی تمام مشکلات ان کو بتا سکیں گے۔
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کریں، بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنا بھی ایک فن ہے اور تمام والدین کو اس فن میں ماہر ہونا چاہیے، اس تعلق کو استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ہر اچھے کام کی ہر وقت حوصلہ افزائی کریں۔